مصری منصوبہ: اسرائیل کی ’ہاں‘، حماس کی ’نہ‘
15 جولائی 2014مصر اور عرب لیگ کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کو فوری طور پر ایک دوسرے کے خلاف جارحیت ختم کر دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ فائر بندی کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر دونوں فریقوں کے نمائندے قاہرہ پہنچ جائیں تاکہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات کیے جا سکیں۔ واشنگٹن حکومت کی طرف سے اس تجویز کا فوری طور پر خیر مقدم کیا گیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کہا:’’میرے خیال میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ تنازعے میں مزید شدت پیدا ہو، اسرائیلی اور فلسطینی سب سے کم ایسا چاہیں گے۔ ہم تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کوشش کریں گے کہ پھر سے فائر بندی ہو جائے۔ مصر سے آنے والی پیشکش سے امید پیدا ہوئی ہے کہ اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔‘‘
تاہم غزہ پٹی کو کنٹرول کرنے والی فلسطینی تنظیم حماس نے یہ کہتے ہوئے مصر کے فائر بندی منصوبے کو رَد کر دیا کہ یہ منصوبہ اُس کی مشاورت کے بغیر اور اُسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ حماس کے عسکری بازو قاسم بریگیڈ نے کہا ہے کہ اُس نے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہونے کے مجوزہ وقت کے بعد جنوبی اسرائیل پر دو مارٹر شیل فائر کیے ہیں۔ غزہ میں سرگرم تنظیم اسلامی جہاد کے ایک ترجمان نے کہا:’’ہمارے ساتھ کسی نے بات نہیں کی۔ ہمیں میڈیا سے ہی پتہ چلا ہے۔ ہم اس کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں اور قاہرہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف نامہ نگاروں اور عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات غزہ پر بیس سے زائد فضائی حملے کرنے والے اسرائیل نے فائر بندی کے مجوزہ وقت کے بعد آج سہ پہر غزہ پر ایک بار پھر کم از کم چار حملے کیے ہیں۔ اس سے پہلے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے مصر کی سیز فائر تجویز پر مثبت رَد عمل ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آج مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے سے فائر بندی پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔
ثالثی کوششوں کے لیے خطّے کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ ایک ملاقات کے موقع پر نیتن یاہو نے آج کہا:’’ہم نے مصر کی درخواست منظور کر لی ہے تاکہ سیاسی ذرائع استعمال کرتے ہوئے غزہ پٹی کو غیر مسلح کیا جا سکے لیکن اگر حماس اس فائر بندی کو قبول نہیں کرتی، جیسا کہ نظر آ رہا ہے تو پھر اسرائیل اپنا فوجی آپریشن پھر سے شروع کرنے میں خود کو ہر طرح سے حق بجانب سمجھتا ہے۔‘‘
اس موقع پر جرمن وزیر خارجہ شٹائن مائر نے اسرائیل کو جرمن تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا:’’غزہ کو حماس کا اسلحے کا ڈپو بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ یہ ہتھیار جہاں اسرائیل اور اُس کے شہریوں کے لیے خطرہ ہیں، وہیں غزہ کے شہری بھی شہری آبادی کے بیچوں بیچ موجود اسلحہ ڈپوؤں کی وجہ سے یرغمال بن کر رہ گئے ہیں۔‘‘
دریں اثناء اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور پانچ سو سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ لاکھوں افراد کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسی دوران ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے الزام عائد کیا ہے کہ غزہ پر بمباری کرتے ہوئے اسرائیل ’خطّے میں دہشت گردی‘ کا مرتکب ہوا ہے۔