عراق کا موجودہ انتشار اور امریکی ذمہ داری
7 جنوری 2014عراق کا صوبہ انبار اُس دور میں بھی انتہائی انتشار اور افراتفری سے عبارت تھا جب امریکی فوجیں عراق میں موجود تھیں۔ عراق میں پانچ ہزار کے قریب مرنے والے امریکی فوجیوں میں سے ایک تہائی کی ہلاکت فلوجہ میں ہوئی تھی۔ اِس میں سن 2004 میں ہونے والی فلوجہ کی جنگ بہت اہم خیال کی جاتی ہے۔ مشہور امریکی پالیسی ساز تھنک ٹینک سینٹر برائے اسٹرٹیجیک اور انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشیر انتھونی کورڈزمین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلوجہ شہر کو امریکی فوج میں کسی استعارے کے طور پر نہیں لیا جا رہا بلکہ امریکی پالیسی کے تناظر میں فلوجہ کے حوالے سے تشویش القاعدہ کے اثر و رسوخ کا فروغ ہے۔
عراق کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں یروشلم میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران واضح کیا تھا کہ اوباما انتظامیہ قطعاً عراق میں نوری المالکی حکومت کی مدد کے لیے امریکی فوجوں کو بھیجنے پر غور نہیں کر رہی۔ کیری نے صاف صاف کہا کہ یہ اُن کی اپنی جنگ ہے اور امریکی اِس میں شامل نہیں ہوں گے۔ امریکا کے اندر عراقی صورت حال کی مناسبت سے صدر اوباما کو تنقید کا سامنا ہے۔
عراقی صوبے انبار میں پیدا بحران کے تناظر میں ری پبلکن پارٹی کے اہم سینیٹروں لنزی گرام اور جان میک کین کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے اور اُس میں کہا گیا کہ جہاں عراق موجودہ بحران کے ذمہ دار ہیں، وہیں اوباما انتظامیہ کو بھی اِس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ جب اوباما نے فوجوں کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا تو اُس وقت فوجوں کے کمانڈروں اور دوسرے سیاستدانوں کی رائے کو نظر انداز کیا گیا تھا اور تبھی یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ امریکی فوج کے مکمل انخلا سے عراق میں جو انتظامی خلا پیدا ہو گا وہ کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اب وہ احساس اور اعتراض درست ثابت ہو گیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سینیٹر لنزی گرام اور سینیٹر جان میک کین اپنا بیان جاری کرتے ہوئے اِس امر کو نظر انداز کر گئے کہ اوباما انتظامیہ عراق میں ایک لمبے عرصے کے لیے فوجی رکھنا چاہتی تھی لیکن فوجوں کا انخلا عراق میں قائم حکومت کی جانب سے امریکی فوجیوں کو کسی آپریشن میں شرکت کے بعد قانونی یا فوجداری استثنیٰ دینا تھا۔ عراقی حکومت کے اِس انکار کے بعد ہی امریکی فوج کے مکمل انخلا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اِس مناسبت سے کونسل برائے خارجہ تعلقات سے منسلک دفاعی تجزیہ کار اسٹیفن بائیڈل کا کہنا ہے کہ امریکا عراق میں اپنی موجودگی کا خواہشمند تھا اور اوباما انتظامیہ بھی اسی انداز میں سوچ رہی تھی اور بغداد حکومت کے ساتھ بات چیت میں مکمل فوجی انخلا اُن کا مقصد نہیں تھا۔
امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق عراق میں سن 2008 کے بعد امریکی فوج کا کردار امن دستوں کی مانند تھا۔ اور یہ ایک طرح سے فرقہ واریت کے آتش فشاں پر رکھے ڈھکن کی طرح تھا۔ اسٹیفن بائیڈل کا خیال ہے کہ جب امریکی فوج کے انخلا سے عراق میں استحکام کا توازن رکھنے کا عنصر بھی غائب ہو گیا اور نتیجتاً فرقہ وارانہ کشیدگی نے بڑھنا شروع کر دیا۔ امریکی تجزیہ کار موجودہ کشیدگی کا سبب سن 2010 کے انتخابات کے بعد نوری المالکی کا سنی اتحاد العراقیہ کو اقتدار میں شریک کرنے سے باہر رکھنا خیال کرتے ہیں۔