فلوجہ بغداد حکومت کے ہاتھوں سے نکل گیا
4 جنوری 2014ہفتہ چار جنوری کو ایک سرکردہ سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ےہوئے کہا:’’فلوجہ اب مکمل طور پر ISIL کے کنٹرول میں ہے۔‘‘ تاہم اس عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ اس شہر کے مضافاتی علاقے بدستور مقامی پولیس کے ہاتھوں میں ہیں۔ تنظیم ISIL کا مکمل نام ’عراق اور شام میں اسلامی ریاست‘ ہے اور یہ شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔
عراقی دارالحکومت بغداد سے مغرب کی جانب واقع شہر رمادی اور فلُوجہ گزشتہ کئی روز سے جزوی طور پر عسکریت پسندوں ہی کے قبضے میں تھے۔ 2003ء میں امریکی سرکردگی میں عراق پر ہونے والے حملے کے بعد بھی یہ دونوں شہر باغیوں کا گڑھ تصور کیے جاتے تھے۔
رمادی میں لڑائی کا آغاز پیر تیس دسمبر سے ہوا، جب سکیورٹی فورسز نے ایک حکومت مخالف احتجاجی کیمپ کو ختم کرنے کی کارروائی کی۔ یہ کیمپ 2012ء کے اواخر میں اُن مظاہروں کے بعد قائم کیا گیا تھا، جن میں سنی عرب اس بات پر احتجاج کرتے تھے کہ شیعہ اکثریت کی حکومت میں سنی اقلیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اُس کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ اس کیمپ کو ختم کرنے کی کارروائی کے موقع پر ہونے والے تصادم میں کم از کم تیرہ افراد مارے گئے تھے۔
فلُوجہ میں موجود اے ایف پی کے ایک صحافی نے بھی کہا ہے کہ شہر اب ISIL کے کنٹرول میں دکھائی دیتا ہے کیونکہ سڑکوں پر سکیورٹی فورسز یا القاعدہ کے خلاف لڑنے والی ملیشیا کا کوئی رکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
دوسری طرف رمادی میں ایک عینی شاہد کا کہنا یہ ہے کہ وہاں کی سٹریٹ سکسٹی پر ایک روز پہلے تک ISIL کے عسکریت پسندوں کا کنٹرول تھا اور اب وہاں عراقی اسپیشل فورس کے دستے تعینات ہیں۔ روئٹرز کے مطابق رمادی میں قبائلی جنگجو عراقی دستوں کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ فلُوجہ میں یہ قبائلی باغیوں کے ساتھ مل گئے ہیں۔
جمعہ تین جنوری کو رمادی اور فلُوجہ میں ایک سو سے زیادہ افرد مارے گئے۔ گزشتہ کئی برسوں میں کسی ایک دن میں یہ مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے آج ہفتے کو قبائلی رہنماؤں اور حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلُوجہ پر پھر سے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں عراقی فوج کل رات بھر شہر پر مارٹر گولے پھینکتی رہی، جن کی زَد میں آ کر کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور تیس زخمی ہو گئے۔
عراق میں بڑھتی ہوئی کشیدگی شام میں جاری خانہ جنگی ہی کا ایک عکس ہے، جہاں زیادہ تر سنی باغی شیعہ طاقت ایران کے حمایت یافتہ صدر بشار الاسد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔