عراق، جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے مابین لڑائی جاری
3 جنوری 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراق سے موصول ہونے والے رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سنی اکثریتی ان دونوں شہروں میں خصوصی سکیورٹٰی فورسز اور القاعدہ سے وابستہ ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ‘ نامی تنظیم کے جنگجوؤں کے مابین شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آخری اطلاعات تک جنگجوؤں نے فلوجہ شہر کے نصف سے زائد حصے پر ابھی تک اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہوا ہے جب کہ صوبائی دارالحکومت رمادی کےکچھ علاقوں میں بھی جنگجوؤں کا تسلط ابھی تک برقرار ہے۔
جنگجوؤں کی طرف سے کارروائی شروع کیے جانے کے بعد جمعرات کے دن ملکی سکیورٹی فورسز اور حکومت نواز مقامی قبائل نے جوابی حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں شدید لڑائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسپیشل فورسز کے کمانڈر میجر جنرل فادہل البرواری کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے، ’’شدید جھڑپوں کے بعد ہم فلوجہ شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔‘‘
دوسری طرف رمادی میں پولیس اور مقامی قبائل نے مل کر جنگجوؤں کی کارروائی کو ناکام بنانے کی کوشش کی تاہم شہر کے مشرقی علاقے میں ابھی تک جنگجوؤں کا کنٹرول برقرار ہے۔ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد عسکری نے تصدیق کی ہے کہ ان کے ساتھ مل کر لڑنے والے قبائلی لوگوں کو حکومت کی طرف سے اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔
رمادی میں جھڑپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب حکومتی فورسز نے وہاں گزشتہ ایک برس سے قائم ایک احتجاجی کیمپ کو پیر کے دن وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں یہ جھڑپیں فلوجہ تک پھیل گئیں۔ بتایا گیا ہے کہ فلوجہ میں جنگجوؤں نے متعدد مقامات پر اپنے چیک پوائنٹس قائم کر دیے ہیں۔
عراق میں سنی مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ شیعہ وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے جب کہ مالکی ایسے تمام تر الزامات کو مسترد کرتے ہیں کہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کسی مخصوص گروہ کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی کی جا رہی ہے۔
اس صورتحال میں ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عراق میں فرقہ ورانہ اور مذہبی بنیادوں پر پیدا ہونے والے تناؤ کو ختم کرنے کی مؤثر کوشش نہیں کی جاتی تو یہ ملک مزید تشدد کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2013ء میں عراق بھر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2008ء کے بعد سب سے زیادہ رہیں۔ گزشتہ برس عراق میں شہری ہلاکتوں کی تعداد سات ہزار818 رہی، جن میں ایک ہزار پچاس سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔