عراقی صوبے انبار پر حکومتی فوج کی غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں
6 جنوری 2014انبار صوبے پر کیے گئے فضائی حملوں کی عراقی وزارت دفاع نے ویڈیو جاری کر دی ہے۔ ان ویڈیوز میں زیادہ تر وہ مناظر ہیں، جو جنگی طیاروں نے بمباری کے وقت ریکارڈ کی تھیں۔ اتوار کے دن انبار صوبے میں القاعدہ سے وابستگی رکھنے والی سنی ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ عراقی فوج نے انبار صوبے کے صوبائی صدر مقام رمادی کے گرد و نواح میں انتہا پسندوں کو پسپا کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ مبصرین کے مطابق سنی باغیوں کی حالیہ پیش قدمی یقینی طور پر بغداد میں قائم نوری المالکی کی شیعہ حکومت کے لیے گہری چوٹ ہے۔ اِس صورت حال پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عراقی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ فضائی فوج کی جانب سے رات میں انتہا پسندوں کے جن ٹھکانوں پر حملے کیے گئے ہیں، ان کا تعلق القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے گروہ اسلامی ریاست عراق و الشرق سے ہے۔ عراق کی حکومت اِس گروپ کو ایک دہشت گرد تنظیم خیال کرتی ہے۔
انبار صوبے کے صدر مقام رمادی کے گرد و نواح میں عراقی فوج اور اُس کی حامی سنی قبائلیوں نے انتہا پسندوں کے خلاف اپنی کارروائی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ رمادی شہر سے دو حکومتی اہلکاروں نے اپنے نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اِس دوران ہونے والی لڑائی میں 22 فوجیوں سمیت 12 سویلین کی ہلاکت ہوئی ہے۔ انہی اہلکاروں کے مطابق کئی انتہا پسند بھی حکومتی اور قبائلیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ رمادی شہر کے بعض حصوں میں عراقی فوج کے داخل ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔
سرکاری ٹیلی وژن پر انبار پر جاری فوجی کارروائی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح کا کہنا ہے کہ فلوجہ اور رمادی سے انتہا پسند جنگجووں کو نکال باہر کرنے کے لیے دو سے تین دن درکار ہوں گے۔ عراقی فوج کے جنرل کے مطابق رمادی اور فلوجہ میں فوجی آپریشن کی قیادت سنی قبائلی کر رہے ہیں کیونکہ وہ علاقے سے خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔ جنرل رشید فلیح کے مطابق فوج ان قبائلیوں کو ہوائی تحفظ اور سپلائی کی نگرانی کر رہی ہے۔
سنی انتہا پسندوں کے قبضے میں آئے ہوئے شہر فلوجہ کے اندر مقامی لوگوں نے خود کو مسلح کرنا شروع کر دیا ہے اور ان میں کچھ ایسے گروپ بھی ہیں، جو عراق میں امریکی فوج کے خلاف بھی مسلح کارروائیوں میں شریک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی طور پر عراق فوج کو شہر میں داخل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اتوار کے روز فلوجہ میں کسی بڑی جھڑپ کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔ حکومتی فوج اورالقاعدہ کے مخالف سنی قبائلیوں نے فلوجہ شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ جمعے کے بعد سے فلوجہ میں انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو فوج کے توپخانے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اتوار کے روز عراقی دارالحکومت بغداد کے شیعہ علاقوں میں خود کش حملے بھی کیے گئے۔ ان حملوں میں کم از کم 20 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ ایک حملہ بغداد کے شمالی حصے میں واقع شیعہ علاقے شعب میں کیا گیا۔ اِس حملے میں دو بارود سے بھری موٹر گاڑیاں ایک ریسٹورانٹ اور چائے ہاؤس کے باہر اڑا دی گئی۔ ان دھماکوں سے کم از کم 10 افراد ہلاک اور 26 کے زخمی ہونے کا بتایا گیا ہے۔
دوسرا حملہ بغداد کے مشرق میں واقع گنجان آباد الصدر میں کیا گیا۔ وہاں کار بم کے پھٹنے سے 5 ہلاک اور 13 کے زخمی ہونے کا طبی حلقوں نے بتایا ہے۔ بغداد ہی کے دو دیگر علاقوں میں کیے گئے بم حملوں میں پانچ افراد کے مارے جانے کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔