1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں قوم پرستی اور جاپان مخالف جذبات میں اضافہ کیوں؟

11 ستمبر 2022

ناقدین کے مطابق چینی حکومت عوام میں قوم پسندی اور حب الوطنی کے شدید جذبات کو ہوا دے کر متبادل آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش میں ہے۔ اس مقصد کے لیے بالخصوص سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم استعمال کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4GQc2
China Internet Explorer
تصویر: Liu Junfeng/Costfoto/picture alliance

چین میں قوم پرستی کے جذبات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب انڈو پیسیفک ریجن کے ممالک جارحانہ انداز میں چینی فوجی طاقت میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے دوران ہی دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں بالخصوص سوشل میڈیا پر جاپان مخالف جذبات پر بہت زیادہ بحث ہوئی۔

پندرہ اگست کو ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں ایک چینی خاتون کو پولیس صرف اس لیے گرفتار کرتی دیکھی گئی کیونکہ اس نے جاپانی ثقافتی لباس کیمونو زیب تن کر رکھا تھا اور وہ تصاویر بنوا رہی تھی۔

چینی انٹرنیٹ سنسر کی زَد میں

چینی شہر سوژوو کے پولیس اہلکار اس خاتون پر چیختے چلاتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ خاتون اشتعال انگیزی کی مرتکب ہوئی، اس لیے اسے گرفتار کیا گیا۔

چینی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم Weibo پر فعال اس خاتون نے بعد ازاں اپنے اکاؤنٹ پر لکھا کہ اسے پانچ گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور پولیس نے ان کے موبائل فون کی تلاشی بھی لی۔

جاپان مخالف جذبات بڑھتے ہوئے؟

اس ویڈیو کو لاکھوں چینی صارفین نے دیکھا۔ کچھ نے سوال کیا کہ آیا پولیس نے غلط ردعمل ظاہر کیا ہے؟ ایک خاتون نے لکھا کہ سوژوو میں کسی خاتون کو جاپانی لباس پہننے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے، یہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

ایک اور صارف نے بھی Weibo پر لکھا کہ آخر اشتعال انگیزی کس کی تھی؟ ان کے مطابق اگر جاپانی روایتی لباس پہننا نقص امن کا باعث ہے تو شہر میں جاپانی ریستوانوں کو بھی بند کر دینا چاہیے۔

چین میں انٹرنیٹ یوزرز کی تعداد 564 ملین

چینی سرکاری جریدے گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ہو جن نے بھی اپنے Weibo اکاؤنٹ پر لکھا کہ کیمونو پہننے پر کسی کو گرفتار کرنا غیر قانونی ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ  تائیوان کے معاملے پر جس طرح جاپانی حکومت امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے، وہ دراصل جاپان مخالف جذبات کا باعث بن رہی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ چینی محقق یاقوئی وانگ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ سوژوو پولیس نے جس طرح سے عمل کیا ہے، وہ چینی حکومت کا مؤقف بھی ہے۔ ان کے بقول بیجنگ حکومت عمومی طور پر ایسے واقعات پر اپنے شہریوں کے خلاف ایسے اقدامات نہیں کرتی ہے۔

مقامی برانڈ ریٹیلر کی معذرت

اٹھارہ اگست کو چینی ریٹیل برانڈ منسو (Miniso) نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے چینی عوام سے معافی مانگ لی۔ اس برانڈ کے ہسپانوی انسٹا گرام اکاؤنٹ پر ایک گڑیا کی تصویر شائع کی گئی، جس کے ساتھ لکھا تھا کہ اسے جاپانی لباس پہنایا گیا ہے تاہم چینی انٹرنیٹ صارفین کے مطابق یہ جاپانی نہیں بلکہ چینی روایتی لباس ہے۔

اس بات پر اس برانڈ کو چینی انٹرنیٹ صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے جواب میں وضاحت کے ساتھ معافی مانگنا پڑی۔

ٹورانٹو یونیورسٹی سے وابستہ چینی امور کی ماہر ٹنگ گیو کے مطابق چین میں اس طرح کے جاپان مخالف جذبات کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نیا مظہر نہیں تاہم اب سیاسی وجوہات کی بنا پر ان جذبات کو ہوا دی جا رہی ہے۔

مغرب کے لیے انتباہ

سیاسی ناقدین کے مطابق اس مخصوص وقت میں چینی حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے خلاف ایک خاص منفی جذبہ پیدا کرنا اور حب الوطنی کا پرچار کرنا اس کی سیاسی مجبوریوں کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ میں مقیم چین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ٹینگ بیاؤ کہتی ہیں کہ جب بھی چین بیرونی دنیا کو خبردار کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے عوام میں جاپان کے خلاف ایسا ہی منفی جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔

ٹینگ بیاؤ نے مزید کہا، ''حتّی کہ کوئی واقعہ رونما نہ بھی ہو، تو بھی چین کی کیمونسٹ پارٹی ملک کے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر اس طرح کے جاپان مخالف جذبات بھڑکا دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مطلق العنان حکومت کی یہ ایک عام پریکٹس ہوتی ہے، تاہم ایسے منفی پراپیگنڈے کی خاطر مناسب وقت کا انتخاب احتیاط سے کیا جاتا ہے۔

ذاتی انتخاب میں مداخلت

ٹینگ بیاؤ کے بقول چینی حکومت عوام کے ذاتی انتخاب میں بھی غیر محسوس طریقے سے مداخلت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو کہ ان حالات میں ایک طبقہ چینی حکومت پر تنقید کرتا ہے لیکن اکثریت حکومت کے اس غیر مناسب رویے پر تنقید کرنے کے اہل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین میں اندھی حب الوطنی اور جاپان مخالف جذبات بہت شدید ہیں۔

چینی سوشل میڈیا پر یوکرینی خواتین پر نامناسب جملے بازی

انسانی حقوق کے وکیل بیاؤ کی طرح محقق گیو اور ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ وانگ بھی متفق ہیں کہ چینی حکومت بالخصوص سوشل میڈیا پر قوم پرستی اور حب الوطنی کے ایسے جذبات ابھارنا چاہتی ہے کہ وہاں کوئی متبادل آواز پنپ ہی نہ سکے۔ ان کے مطابق بہت سے لوگ ان قوم پرست انٹرنیٹ صارفین سے خوفزدہ ہیں، اس لیے وہ خاموشی اختیار کر چکے ہیں۔

ٹینگ بیاؤ کے بقول چینی حکومت مستقبل میں بھی جاپان اور مغرب مخالف جذبات کو ہوا دیتے ہوئے قوم پرستی کو فروغ دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب کوئی حکومت انٹرنیٹ صارفینکے سوچ کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتی۔ بیاؤ کے مطابق چینی حکومت لوگوں کے خیالات اور نظریات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی خاطر اپنی  مداخلت میں مزید اضافہ کرے گی۔

ولیم ینگ (ع ب، ع ا )

چار ارب انسان انٹرنیٹ سے محروم کیوں؟