چینی انٹرنیٹ سنسر کی زَد میں
12 ستمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں چینی دارالحکومت بیجنگ سے تیز رفتار ترین ریل گاڑی کے ذریعے نصف گھنٹے کے سفر پر واقع شہر تیان جِن کے مضافات میں واقع ایک جدید عمارت کا احوال بتایا ہے، جہاں اس مائیکرو بلاگنگ سروس پر بھیجے جانے ولے پیغامات کو سنسر کرنے والے کارکن قطار در قطار بیٹھے کمپیوٹر سکرینوں پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہر ایسے پیغام کو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، جسے ناپسندیدہ یا سیاسی اعتبار سے ناقابل قبول کہا جا سکتا ہو۔
ناپسندیدہ پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے والے یہ کارکن کمیونسٹ پارٹی کے کوئی عمر رسیدہ ارکان نہیں بلکہ کالجوں سے نکلے ہوئے نئے نئے نوجوان گریجوایٹ ہیں، جو اپنی سرگرمی کے حوالے سے متضاد احساسات بھی رکھتے ہیں اور کام کے دباؤ اور اجرتوں سے بھی بہت زیادہ ناخوش ہیں۔
چین میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنا ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے سنسر شپ کو کلیدی اہمیت کا حامل اقدام تصور کرتی ہے۔ حال ہی میں جو نئے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں، اُن کے تحت آن لائن افواہیں پھیلانے والے کو قید کی سزا تک بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب چین اپنے عوام کے لیے کوئی ایسا راستہ بھی کھلا رکھنا چاہتی ہے، جس پر چلتے ہوئے وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی احتجاج کی باقی صورتوں پر بہت زیادہ قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔
روئٹرز نے چار ایسے افراد کے ساتھ بات چیت کی، جنہوں نے اس سال مختلف اوقات میں سینا وائبو کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنی اب تک کی سرگرمیوں کی حساس نوعیت کے سبب کسی نے بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ سنسر شپ کے کام پر مامور لوگ شروع شروع میں اپنے کام کے حوالے سے ملے جُلے جذبات رکھتے ہیں تاہم رفتہ رفتہ وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور بس چپ چاپ اپنا کام کیے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک کارکن کو فی گھنٹہ کم از کم تین ہزار پوسٹس جانچنا پڑتی ہیں۔
سینا وائبو کے ان سابقہ کارکنوں کے مطابق اُن کی سنسر شپ کی سرگرمیوں کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ سینا وائبو سروس بند ہونے سے بچی ہوئی ہے اور یوں لوگوں کو بدستور ایک ایسا پلیٹ فارم دستیاب ہے، جہاں وہ اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔
ان سابقہ کارکنوں کے مطابق تیان جِن کے نواح میں واقع اس دفتر میں سینا وائبو نے مجموعی طور پر کوئی ڈیڑھ سو نوجوان کالج گریجوایٹس کو ملازمت دے رکھی ہے، جو مختلف اوقات میں وہاں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ پیغامات سنسنر کرنے کا کام چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ یہ تمام کارکن مرد ہیں۔ چینی خواتین اس کام سے دو وجوہات کی بناء پر اجتناب کرتی ہیں، ایک تو رات کے وقت ڈیوٹی انجام دینے سے اور دوسرے سینا وائبو پر بھیجے جانے والے ’ناپسندیدہ‘ پیغامات کی وجہ سے۔
چین بھر میں انٹرنیٹ کو سنسر کرنے پر ہزارہا افراد مامور ہیں۔ سینا وائبو کے ہاں سنسر شپ کے کام پر مامور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان ہیں اور اُنہیں تقریباً تین ہزار یوآن (490 ڈالر) ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
پیغامات کو سنسر کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ کئی بار پیغام بھیجنے والے کو اپنا پیغام بدستور نظر آتا رہتا ہے لیکن باقی صارفین کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ کئی مرتبہ کسی بلاگر کی وَیب سائٹ کو عارضی طور پر بلاک کرتے ہوئے اُسے ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے کی سزا دی جاتی ہے۔
اسٹیٹ انفارمیشن آفس کے ڈائریکٹر لُو وائی نے رواں ہفتے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا، ’آزادی کا مطلب ہے نظم، نظم کے بغیر آزادی کا وجود ہی نہیں ہے‘۔ چین کی اعلیٰ عدالت اور استغاثہ کے مطابق افواہیں پھیلانے والوں پر تب فرد جرم عائد کی جائے گی، جب اُن کی افواہوں کو پانچ ہزار انٹرنیٹ صارفین وزٹ کریں گے یا وہ پانچ سو سے زیادہ مرتبہ دوبارہ پوسٹ کی گئی ہو گی۔ ایسے افراد کو تین سال تک کی سزائے قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔