1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی انٹرنیٹ سنسر کی زَد میں

امجد علی12 ستمبر 2013

سینا کارپ چین کی سب سے بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں میں سے ایک ہے، جس کی ٹویٹر کی طرز کی مائیکرو بلاگنگ سائٹ ’سینا وائبو‘ کے رجسٹرڈ صارفین کی تعداد پانچ سو ملین بتائی جاتی ہے تاہم اس سروس کو بڑے پیمانے پر سنسر کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/19gXn
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں چینی دارالحکومت بیجنگ سے تیز رفتار ترین ریل گاڑی کے ذریعے نصف گھنٹے کے سفر پر واقع شہر تیان جِن کے مضافات میں واقع ایک جدید عمارت کا احوال بتایا ہے، جہاں اس مائیکرو بلاگنگ سروس پر بھیجے جانے ولے پیغامات کو سنسر کرنے والے کارکن قطار در قطار بیٹھے کمپیوٹر سکرینوں پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ہر ایسے پیغام کو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، جسے ناپسندیدہ یا سیاسی اعتبار سے ناقابل قبول کہا جا سکتا ہو۔

ناپسندیدہ پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے والے یہ کارکن کمیونسٹ پارٹی کے کوئی عمر رسیدہ ارکان نہیں بلکہ کالجوں سے نکلے ہوئے نئے نئے نوجوان گریجوایٹ ہیں، جو اپنی سرگرمی کے حوالے سے متضاد احساسات بھی رکھتے ہیں اور کام کے دباؤ اور اجرتوں سے بھی بہت زیادہ ناخوش ہیں۔

چین میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنا ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے سنسر شپ کو کلیدی اہمیت کا حامل اقدام تصور کرتی ہے۔ حال ہی میں جو نئے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں، اُن کے تحت آن لائن افواہیں پھیلانے والے کو قید کی سزا تک بھی ہو سکتی ہے۔

سینا وائبو پر بلاک کیے جانے والے پیغامات پر شائع ہونے والی ایک کتاب کا سرورق
سینا وائبو پر بلاک کیے جانے والے پیغامات پر شائع ہونے والی ایک کتاب کا سرورقتصویر: New Pr

دوسری جانب چین اپنے عوام کے لیے کوئی ایسا راستہ بھی کھلا رکھنا چاہتی ہے، جس پر چلتے ہوئے وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی احتجاج کی باقی صورتوں پر بہت زیادہ قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔

روئٹرز نے چار ایسے افراد کے ساتھ بات چیت کی، جنہوں نے اس سال مختلف اوقات میں سینا وائبو کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنی اب تک کی سرگرمیوں کی حساس نوعیت کے سبب کسی نے بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ سنسر شپ کے کام پر مامور لوگ شروع شروع میں اپنے کام کے حوالے سے ملے جُلے جذبات رکھتے ہیں تاہم رفتہ رفتہ وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور بس چپ چاپ اپنا کام کیے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک کارکن کو فی گھنٹہ کم از کم تین ہزار پوسٹس جانچنا پڑتی ہیں۔

سینا وائبو کے ان سابقہ کارکنوں کے مطابق اُن کی سنسر شپ کی سرگرمیوں کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ سینا وائبو سروس بند ہونے سے بچی ہوئی ہے اور یوں لوگوں کو بدستور ایک ایسا پلیٹ فارم دستیاب ہے، جہاں وہ اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔

ان سابقہ کارکنوں کے مطابق تیان جِن کے نواح میں واقع اس دفتر میں سینا وائبو نے مجموعی طور پر کوئی ڈیڑھ سو نوجوان کالج گریجوایٹس کو ملازمت دے رکھی ہے، جو مختلف اوقات میں وہاں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ پیغامات سنسنر کرنے کا کام چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ یہ تمام کارکن مرد ہیں۔ چینی خواتین اس کام سے دو وجوہات کی بناء پر اجتناب کرتی ہیں، ایک تو رات کے وقت ڈیوٹی انجام دینے سے اور دوسرے سینا وائبو پر بھیجے جانے والے ’ناپسندیدہ‘ پیغامات کی وجہ سے۔

چینی کارکن قطار در قطار بیٹھے پیغامات کو سنسر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں
چینی کارکن قطار در قطار بیٹھے پیغامات کو سنسر کرنے میں مصروف ہوتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

چین بھر میں انٹرنیٹ کو سنسر کرنے پر ہزارہا افراد مامور ہیں۔ سینا وائبو کے ہاں سنسر شپ کے کام پر مامور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان ہیں اور اُنہیں تقریباً تین ہزار یوآن (490 ڈالر) ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔

پیغامات کو سنسر کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ کئی بار پیغام بھیجنے والے کو اپنا پیغام بدستور نظر آتا رہتا ہے لیکن باقی صارفین کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ کئی مرتبہ کسی بلاگر کی وَیب سائٹ کو عارضی طور پر بلاک کرتے ہوئے اُسے ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے کی سزا دی جاتی ہے۔

اسٹیٹ انفارمیشن آفس کے ڈائریکٹر لُو وائی نے رواں ہفتے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا، ’آزادی کا مطلب ہے نظم، نظم کے بغیر آزادی کا وجود ہی نہیں ہے‘۔ چین کی اعلیٰ عدالت اور استغاثہ کے مطابق افواہیں پھیلانے والوں پر تب فرد جرم عائد کی جائے گی، جب اُن کی افواہوں کو پانچ ہزار انٹرنیٹ صارفین وزٹ کریں گے یا وہ پانچ سو سے زیادہ مرتبہ دوبارہ پوسٹ کی گئی ہو گی۔ ایسے افراد کو تین سال تک کی سزائے قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔