متحدہ فلسطینی حکومت قائم ہو گئی، غزہ میں نئی امید
2 جون 2014اس نئی فلسطینی حکومت کے قیام کا کافی عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ نئی متحدہ فلسطینی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم رامی حمداللہ ہیں اور کابینہ کے 13 آزاد ارکان سے حلف صدر محمود عباس نے مغربی کنارے کے مرکزی شہر راملہ میں منعقدہ ایک تقریب میں لیا۔
ان تمام وزراء کا تعلق مغربی اردن سے ہے جبکہ غزہ پٹی سے تعلق رکھنے والے چار وزراء اس لیے حلف نہ اٹھا سکے کہ اسرائیل نے انہیں اپنے علاقے سے گزر کر مغربی اردن جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
نئی فلسطینی حکومت میں وزیر خارجہ کا عہدہ دوبارہ ریاض المالکی کو دیا گیا ہے، جو صدر عباس کے بہت بڑے حامی ہیں، اسی عہدے پر 2007ء سے فرائض انجام دے رہے ہیں اور جن کی وزیر خارجہ کے طور پر نئی تقرری کی اب تک غزہ میں حکمران حماس کی طرف سے مخالفت بھی کی جا رہی تھی۔
حماس اور صدر عباس کی فتح پارٹی کے مابین ایک اور اختلاف قیدیوں سے متعلقہ امور کے وزیر کی تعیناتی کا تھا۔ آج پیر کو جن فلسطینی وزراء نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا، ان میں قیدیوں کے امور کا کوئی وزیر شامل نہیں تھا۔ صدر عباس کا ارادہ ہے کہ نئی فلسطینی حکومت میں قیدیوں کے امور کے وزیر کا عہدہ سرے سے ختم کر دیا جائے۔
فلسطینیوں کی نئی متحدہ حکومت کا قیام غزہ پر حکمران اسلام پسند تنظیم حماس اور محمود عباس کی سیکولر فتح پارٹی کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ اختلافات غزہ پر حماس کے زبردستی کنٹرول حاصل کر لینے کے ساتھ 2007ء میں شروع ہوئے تھے اور ان کے خاتمے سے متعلق فتح اور حماس کے رہنماؤں کے مابین اتفاق رائے اپریل میں ہوا تھا۔ اسی اتفاق رائے میں غزہ اور مغربی اردن کے علاقوں میں ایک متحدہ فلسطینی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، جس پر آج عملدرآمد بھی ہو گیا۔
صدر محمود عباس نے نئی متحدہ حکومت کے سربراہ کے طور پر رامی حمداللہ کی تقرری کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا تھا۔ اپنی نئی تقرری سے پہلے بھی حمداللہ اسی منصب پر فائز تھے۔ وہ گزشتہ برس سلام فیاض کے مستعفی ہو جانے کے بعد وزیر اعظم مقرر کیے گئے تھے۔
فتح پارٹی کے حماس کے ساتھ اختلافات ختم کرنے کے فیصلے سے قبل صدر عباس کی ترجیحی کوشش یہ تھی کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔ لیکن جب محمود عباس کی قیادت میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات تقریباﹰ ناکام ہو گئے، تو صدر عباس نے منقسم فلسطینی خود مختار علاقوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیا تھا۔
ڈوئچے ویلے کی نامہ نگار تانیا کریمر نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ فتح اور حماس کے مابین عملی مصالحت کافی طویل ہو گی لیکن اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ غزہ میں الازہر یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ابو سعادہ کہتے ہیں کہ مصالحتی عمل کا مشکل مرحلہ غزہ میں حماس کے متعاف کردہ اور مغربی کنارے کے علاقے میں فتح کی سربراہی میں کام کرنے والے ان دو قطعی مختلف انتظامی ڈھانچوں کو یکجا کرنا ہو گا، جو گزشتہ سات سال سے کام کر رہے تھے۔