’متحدہ فلسطینی حکومت اسرائیل کو تسلیم کر لے گی‘
24 اپریل 2014متحارب فلسطینی دھڑوں فتح تحریک اور حماس کے مابین بدھ کی شام غزہ پٹی کے شمال میں جس مصالحتی سمجھوتے پر دستخط کیے گئے، اسے تاریخ ساز اور بالخصوص غزہ کے عوام کے لیے امید کی کرن قرار دیا جا رہا ہے۔ معاہدے کے تحت مئی کے آخر تک فلسطینی خود مختار علاقوں میں ایک عبوری متحدہ حکومت قائم ہو جائے گی۔
حماس سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے کل بدھ کو غزہ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ بڑی خوشی سے اعلان کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کے مابین داخلی تقسیم کے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ حماس اور فتح کے مابین خونریز اختلافات اس وقت سامنے آئے تھے جب 2007ء میں حماس نے غزہ پٹی سے فتح کی فورسز کو زبردستی نکالنے کی کوشش کی تھی۔ تب سے غزہ پر حماس کی حکمرانی ہے اور صدر عباس کی فتح تحریک کا اقتدار صرف مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے تک محدود ہے۔
تل ابیب سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مصالحتی معاہدے کے ایک روز بعد فلسطینی صدر عباس کے ایک مشیر نے آج کہا کہ مستقبل کی متحدہ فلسطینی حکومت اسرائیل کا ایک ریاست کے طور پر بقا کا حق تسلیم کر لے گی اور تنازعے کے دو ریاستی حل کی کوششیں کی جائیں گی۔
عباس کی فتح پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار جبریل رجب نے اسرائیلی ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ مئی کے آخر تک متحدہ فلسطینی حکومت قائم ہو جائے گی۔ اس کے بعد صدارتی الیکشن، قانون ساز اسمبلی کے انتخابات اور تنظیم آزادی فلسطین PLO کے نئے منتخب ارکان کا چناؤ بھی اگلے چھ ماہ کے اندر اندر ایک ہی وقت پر عمل میں آ سکیں گے۔
جبریل رجب کے مطابق اپنی قیادت میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد صدر عباس یہ اعلان کر دیں گے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے چار فریقی گروپ کی طے کردہ شرائط کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کی سربراہی میں فلسطینی حکومت ’دو قوموں کے لیے دو ریاستوں‘ کی بنیاد پر تنازعے کے مجوزہ حل کو تسلیم کرتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے کوشاں چار کے گروپ میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا اور روس شامل ہیں۔
اسی دوران بہت سے ملکوں اور عالمی رہنماؤں نے متحارب فلسطینی دھڑوں کے مابین مصالحت کا خیر مقدم کیا ہے۔ چین نے اس مصالحت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خطے میں قیام امن میں معاون ثابت ہو گی۔
امریکا کی طرف سے کل فوری طور پر یہ کہا گیا تھا کہ اسے اس مصالحتی معاہدے سے مایوسی ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر عباس نے امن اور حماس میں سے حماس کا انتخاب کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امن کے خواہش مند نہیں ہیں۔
دوسری طرف کئی سیاسی مبصرین کے بقول صدر عباس کے مشیر جبریل رجب نے آج جو بیان دیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ فتح اور حماس کے مابین مصالحت اور اسرائیل کے ریاستی حق کو تسلیم کرنا درست راستے پر فیصلہ کن قدم ہو سکتے ہیں۔