عراق میں فرقہ ورانہ خونریزی میں اضافہ تشویشناک، مارٹن کوبلر
27 جون 2013آج جمعرات کے روز بغداد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مارٹن کوبلر نے عراق میں اپنی تعیناتی کی مدت پوری ہونے کے موقع پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ عراق میں ہلاکت خیز اور پرتشدد واقعات میں شدت آتی جا رہی ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران وہاں بنیادی اہمیت کے حامل سیاسی معاملات میں بھی کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ سکی۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے مارٹن کوبلر نے، جو ماضی میں بغداد میں جرمنی کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، عراق میں سلامتی کی مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورت حال کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
ان کے مطابق کلیدی اہمیت کے حامل جن سیاسی امور پر فوری توجہ دینا ضروری ہے، ان میں توانائی کے شعبے میں ریگولیٹری قوانین کی تیاری، تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کی منصفانہ تقسیم اور شمالی عراق کا وہ علاقائی تنازعہ بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے حل نہیں ہو سکا ہے۔
اس سابق جرمن سفارت کار اور عالمی ادارے کے خصوصی مندوب نے کہا، ’گزشتہ دو برسوں کے دوران جو مثبت پیش رفت ہوئی ہے، اس میں سے ہمسایہ ملک کویت کے ساتھ مسلسل بہتر ہوتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور انتخابات کا کامیاب انعقاد خاص طور پر قابل ذکر ہیں تاہم عراق کو ابھی بھی وسیع تر اقتصادی اصلاحات اور سیاسی اور مالیاتی شعبوں میں زیادہ جامع وفاقی نظام کی اشد ضرورت ہے‘۔
مارٹن کوبلر نے بغداد میں اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کے طور پر اپنی ذمہ داریاں دو سال تک انجام دیں۔ عراقی دارالحکومت کے بہت زیادہ سکیورٹی والے گرین زون میں واقع اپنی رہائش گاہ پر اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دو سالہ مدت کے اختتام پر انہیں عراق میں موجودہ حالات کے سلسلے میں اس لیے بڑی تشویش ہے کہ خونریزی اور فرقہ واریت میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مارٹن کوبلر کو عراق میں ان کی ذمہ داریوں کی مدت پوری ہونے کے بعد افریقہ میں ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے لیے اقوام متحدہ کا خصوصی مندوب بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے عراق سے اپنی باقاعدہ رخصتی سے قبل خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ عراق میں جو حالات نظر آ رہے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں خراب تر ہوتی جا رہی صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مارٹن کوبلر نے یہ بات اس شماریاتی پس منظر میں کہی کہ عراق میں اس سال مئی کا مہینہ 2008ء کے بعد سے اب تک کا سب سے خونریز مہینہ ثابت ہوا تھا۔ ان کے بقول، ’عراق میں شیعہ سنی تنازعہ عملی طور پر ہر شعبے کو مفلوج کرتا جا رہا ہے‘۔
کئی تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ عراق میں بڑھتی ہوئی خونریز فرقہ واریت کا تعلق بہت اعلیٰ سطح پر پائے جانے والے اس سیاسی تنازعے سے ہے جس میں ایک طرف مختلف سنی عرب گروپ ہیں اور دوسری طرف شیعہ مسلمانوں کی قیادت میں کام کرنے والے ریاستی ادارے اور اہلکار۔
عراق میں سنی اقلیتی آبادی کے افراد کی طرف سے کئی مہینوں تک کیے جانے والے وسیع تر مظاہروں میں یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ملک میں سنی آبادی کے ساتھ زیادتیاں کی جا رہی ہیں۔ اس طرح عسکریت پسند سنی گروپوں کو بھی یہ موقع ملتا رہا کہ وہ حالات کو اپنے حق میں استعمال کر سکیں اور مقامی سنی نوجوانوں کو اپنی صفوں میں بھرتی کر سکیں۔
مارٹن کوبلر نے اپنے انٹرویو میں کہا، ’عراق میں کوئی منظم اور باقاعدہ سیاسی مکالمت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ایسے میں شیعہ اور سنی آبادیوں کے نمائندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت نہ کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کا نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے‘۔ کوبلر کے مطابق عراق میں سنی مظاہرین اور حکومت کے مابین سیاسی تصادم کا فوری حل ناگزیر ہے۔
(mm / shs (AFP