عراق میں ہلاکتوں کا افسوسناک ریکارڈ
1 جون 2013اقوام متحدہ کی جانب سے عراق کے حالات پر ایک تازہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ ماہ عراق میں ہونے والے پرتشدد حملوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران عراق میں دو ہزار سے زائد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ عراق میں اقوام متحدہ کےنمائندے مارٹن کوبلر کے بقول یہ ایک افسوناک ریکارڈ ہے:’’عراقی سیاستدانوں کو اس ناقابل برداشت خونریزی کو روکنے اور صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے‘‘۔
مئی کے آخری ہفتے کے دوران دارالحکومت بغداد میں ہونے والے بم دھماکوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں ہلاک ہونے والے 1045 افراد میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی پولیس اور ہسپتال ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات اکھٹی کر کے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 600 بتائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے اعداد و شمار میں فرق کا تعلق اطلاع فراہم کرنے والے ذرائع سے ہوتا ہےکیونکہ اکثر بم دھماکے یا کسی دہشت گردانہ حملے میں مرنے والے کی تعداد بعد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عراق کی شیعہ حکومت اور سنی اقلیت کے مابین تناؤ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ سنیوں کا الزام ہے کہ حکومت جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق القاعدہ اور دیگر سنی مسلح گروپ خود کو دوبارہ سے مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دسمبر 2011ء میں امریکی انخلاء کے بعد ان گروپوں کی طاقت میں کمی آ گئی تھی۔ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین شدید جھڑپوں کے دوران ایسا دور بھی گزرا ہے، جب ایک ماہ میں تین ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت کا موقف ہے کہ القاعدہ کی ایک حامی تنظیم اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور صدام دور کے سابق فوجی افسران کا نقشبندی گروپ شیعہ ملیشیا تنظیموں کو مشتعل کی کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی حکام کے بقول شیعہ ملیشیا گروپ مہدی آرمی، عصائب الحق اور کتائب حزب اللہ نے ابھی تک خود کو اس تنازعے سے دور رکھا ہوا ہے۔ لیکن ان کے کمانڈر یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورتحال سے نمنٹنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔
ai / aa (Reuters)