عراق میں خودکش حملہ، کم از کم دس افراد ہلاک
1 دسمبر 2013شمالی عراق کے علاقے مقدادیہ میں یہ دھماکا ایک قبرستان میں کیا گیا جہاں ایک حکومتی حامی سنی رہنما کی تدفین کی جا رہی تھی۔ کسی تنظیم یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم القاعدہ سے منسلک شدت پسند ان سنی رہنماؤں کو اس سے قبل بھی نشانہ بنا چکے ہیں جو کہ عراقی حکومت کے حامی تھے۔ عراق گزشتہ کئی ماہ سے پر تشدد کارروائیوں کی لپیٹ میں ہے۔
عراق میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عراقی حکام ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے میں یک سر ناکام ہو چکے ہیں۔ مگر عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کا قلع قمع کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی حکومت مزید اقدامات کرے گی۔
رواں برس عراق میں عیدالفطر کے موقع پر کیفے، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے عراق میں ہونے والی ہلاکتوں کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
جمعے کے روز عراقی پولیس نے بغداد کے قریب سے اٹھارہ لاشیں دریافت کی تھیں جن میں مذکورہ حکومت کے حامی سنی رہنما اور ان کے فرزند کی لاشیں بھی تھیں۔ ان افراد کو اغوا کرنے کے بعد سر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ عراق کے ایک سینئر سکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ یہ تمام تر علامات ظاہر کرتی ہیں کہ ان افراد کو القاعدہ نے قتل کیا تھا۔
ان واقعات کو عراق میں گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے سب سے زیادہ خون ریز واقعات کہا جا رہا ہے۔ عراق کی شیعہ حکومت القاعدہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے عسکریت پسند سنی مسلمانوں کو ان واقعات کے لیے مورود الزام ٹھہراتی ہے۔ اس برس کی ابتدا سے ہی ہر ماہ کئی سو کی تعداد میں عراقی شہری اسی نوعیت کے حملوں میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ عراق میں بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیوں کی اس تازہ لہر سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں سن 07-2006 والا خانہ جنگی کا دور عراق میں لوٹ کر نہ آ جائے۔