شام ميں اسلامی عسکريت پسند تنظيموں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
27 نومبر 2013خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں متعدد اسلام پسند گروہوں کے نئے اتحاد ’اسلامک فرنٹ‘ کی جانب سے ملک ميں ايک اسلامی رياست قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اقليتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اعلان کيا گيا ہے۔
شام ميں سرگرم سب سے بڑے مسلح اپوزيشن گروپ اسلامک فرنٹ کی طرف سے ملکی سياست ميں بھی کردار ادا کرنے کا عنديہ ديا گيا ہے۔ اس گروپ کی جانب سے جاری کردہ ايک تازہ بيان ميں ملکی صدر بشارالاسد کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے اسلامی نظام نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کيا گيا ہے اور يہ بھی کہا گيا ہے کہ اس نظام کے تحت اقليتوں کے تحفظ کو يقينی بنايا جائے گا۔ اسلامک فرنٹ نے کہا کہ وہ ايک ’ظالمانہ اور آمرانہ‘ طرز حکومت بالکل نہيں اپنائيں گے۔ تاہم اس تازہ بيان ميں اس بارے ميں واضح طور پر نہيں بتايا گيا کہ صدر اسد کی اقتدار سے عليحدگی کے بعد ان کی جانب سے کيا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ باغی تحريک ميں شامل چھ اہم اسلام پسند گروہوں نے ’اسلامک فرنٹ‘ کے نام سے اس نئے اتحاد کے قيام کا چند روز قبل اعلان کيا تھا۔ اس نئی تنظيم نے اپنے پيغام ميں القاعدہ سے منسلک تنظيموں کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار بھی کيا۔ گروپ کی جانب سے جاری کردہ بيان کے مطابق ’’يہ ايک آزاد سياسی، عسکری اور سماجی گروپ ہے، جو صدر اسد کی حکومت کے خاتمے اور اسلامی رياست کے قيام کے مقصد سے بنايا گيا ہے۔‘‘
عوام ميں القاعدہ سے منسلک تنظيوں کا خوف
شام ميں جاری خانہ جنگی مسلسل پيچيدگی اختيار کر رہی ہے۔ ملک ميں جمہوری نظام کے قيام کے ليے جد و جہد کرنے والوں کو قبل ازيں صرف سرکاری افواج سے خطرات لاحق تھے تاہم نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق اب ان جمہوريت نواز کارکنوں کو اسلامی عسکريت پسند تنظيموں سے بھی خطرات لاحق ہيں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام ميں انيس ايسے افراد سے بات چيت کی، جو خود کو جمہوريت نواز کارکن بتاتے ہيں۔ ان سب نے ملک کے شمالی علاقوں ميں متعدد پرتشدد اور ہولناک واقعات کے بارے ميں بتايا، جن ميں قصور وار اسلامی عسکريت پسند تنظيموں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
دريں اثناء شام ميں جاری خانہ جنگی کے اثرات آہستہ آہستہ خطے کو مزید اپنی لپيٹ ميں ليتے جا رہے ہيں۔ عراق ميں رواں سال متعدد پرتشدد واقعات ميں قريب چھ ہزار افراد مارے جا چکے ہيں۔ اگرچہ اس حوالے سے کسی نے براہ راست ذمہ داری قبول نہيں کی ہے تاہم وہاں کی حکومت اس کی کڑی بھی پڑوسی ملک شام ميں القاعدہ سے منسلک گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ملارہی ہے۔
واضح رہے کہ شام ميں صدر اسد کی حکومت کے خاتمے کے ليے مارچ سن 2011 سے جاری مسلح تحريک ميں متعدد اندازوں کے مطابق ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔