عراق میں تشدد کا سلسلہ جاری، اکتالیس افراد ہلاک
2 جولائی 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے دارالحکومت بغداد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ المقدادیہ میں واقع ایک مسجد پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب مسجد میں موجود لوگ ایک مقتول پولیس افسر کی آخری رسومات کی خصوصی تقریب میں شریک تھے۔ یہ پولیس اہلکار سڑک کے کنارے نصب ایک بم پھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ ایک خود کش بمبار کے حملے کے نتیجے میں مسجد کی چھت منہدم ہو گئی۔ پولیس کے بقول بہت سے لوگ ملبے تلے دب گئے ہیں۔ اس خونریز حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔ طبی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
عراق میں یہ تازہ حملے اسی دن ہوئے ہیں، جب اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپریل سے اب تک مختلف پر تشدد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ عراقی صوبے دیالہ میں سنی شیعہ فرقہ ورانہ واقعات پہلے بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
پیر کے دن تشدد کے ایک اور واقعہ میں بعقوبہ میں شیعہ اکثریتی علاقے میں واقع ایک کیفے کو نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس خود کش حملے میں کم ازکم دس افراد مارے گئے۔ ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم اس طرح کے خود کش حملے عراق میں متحرک القاعدہ کے حامی گروہ کرتے ہیں۔ یہ گروہ ماضی میں کیے گئے ایسے متعدد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکے ہیں۔ قبل ازیں بغداد کے شمال سے آٹھ سابق سنی جنگجوؤں کو ان کے گھروں سے اغوا کرنے کے بعد انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
جون میں عراق بھر میں ہونے والے ایسے حملوں کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 761 بتائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے پیر کے دن ہی بتایا ہے کہ اگرچہ عراق میں فرقہ ورانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم پھر بھی صورتحال 2006ء اور 2007ء کے دوران بھڑکنے والے خونی فسادات کے مقابلے میں کم کشیدہ ہے۔ اُس دور میں کئی مرتبہ ایک ماہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ہزار تک بھی پہنچ جاتی تھی۔