عراق میں القاعدہ کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، اوباما
2 نومبر 2013دونوں رہنماؤں نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی۔ انہوں نے عراق میں حالیہ مہینوں کے دوران تشدد کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے تناظر میں پھر سے سر اٹھاتے ہوئے دہشت گرد گروہ القاعدہ کے خلاف لڑائی کی ضرورت پر غور کیا۔
باراک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں نوری المالکی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’’بدقسمتی سے، القاعدہ ابھی تک سرگرم رہی ہے اور حال ہی میں اس کی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’لہٰذا ہم نے اس موضوع پر کافی بات چیت کی ہے کہ ہم کس طرح اس دہشت گرد گروہ کے خلاف مل کر کام کر سکتے ہیں، جو نہ صرف عراق میں کام کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا بالخصوص امریکا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اس میں عراق کو درپیش عسکری آلات کی ’فوری‘ ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کو نشانہ بنا سکے۔ تاہم اس اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مستقبل میں واشنگٹن انتظامیہ عراق کو کس طرح کے آلات فراہم کر سکتی ہے۔
خیال رہے کہ عراق میں گزشتہ ماہ مختلف پرتشدد کارروائیوں کے دوران تقریباﹰ ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق عراق میں ستمبر میں بھی اتنے ہی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
عراقی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے بارے میں اوباما اور ان کا مؤقف اور نظریات ایک جیسے ہیں۔ اوباما اور مالکی نے عراق میں آئندہ برس اپریل میں ہونے والے انتخابات سے قبل اقتدار کی سیاسی منتقلی پر بھی بات چیت کی۔ اس حوالے سے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ آئندہ حکومت میں سنیوں، شعیاؤں اور کردوں کو حکومت میں شامل کرنے کی کوششیں حوصلہ افزا ہیں۔
انہوں نے کہا: ’’پوری بات چیت میں، مرکزی موضوع یہ تھا کہ امریکا عراق کا مضبوط اور مؤثر پارٹنر بننا چاہتا ہے۔‘‘
باراک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا عراق کو جمہوری اور خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ نوری المالکی نے عراق میں جمہوریت کو ’نوخیز اور کمزور‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے بغداد حکومت کو مدد درکار ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق بعض امریکی سینیٹروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمہوری اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے مالکی نے کافی کوششیں نہیں کیں۔ سینیٹروں کے ایک گروپ نے رواں ہفتے اوباما کے نام خط میں الزام لگایا تھا کہ مالکی کی بدعنوانی پر مبنی سرگرمیاں بھی عراق میں تشدد کی حالیہ کارروائیوں کی وجہ رہی ہیں۔