عراق کا خونی اتوار، 54 ہلاکتیں
27 اکتوبر 2013ایسوسی ایٹڈ پریس نے آج عراق میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم 56 بتائی ہے اور کہا ہے کہ آج کی ہلاکتوں کے بعد عراق بھر میں صرف اسی مہینے کے اندر اندر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 545 تک پہنچ گئی ہے۔
پولیس کے مطابق آج دَس کار بم دھماکے بغداد اور اُس کے نواح میں واقع زیادہ تر ایسے علاقوں میں ہوئے، جہاں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی ان دھماکوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے تاہم ان دھماکوں کا شبہ اس سال عراق میں زور پکڑتی ہوئی دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے سنی انتہا پسندوں پر کیا جا رہا ہے، جن کی نظر میں شیعہ بے دین ہیں۔
سنی انتہا پسند شیعہ جماعتوں کی قیادت میں قائم حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ خاص طور پر فوجیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہیں۔
آج اتوار کا خونریز ترین حملہ شمالی عراق کے شہر موصل میں ہوا، جہاں ایک شخص نے اپنی کار ایک سرکاری بینک کے باہر کھڑے اُن فوجیوں سے جا کر ٹکرا دی، جو اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
مزید 42 افراد بغداد اور اُس کے نواحی علاقوں میں ہونے والے کار بم دھماکوں کے نتیجے میں جان سے گئے۔ ان میں سے دو شدید ترین کار بم دھماکے یکے بعد دیگرے بغداد سے جنوب کی طرف واقع نہروان نامی قصبے کے ایک پُر ہجوم بازار میں ہوئے۔ ان دھماکوں نے سات افراد کی جان لے لی۔
بلادیت میں، جہاں ایک کار بم حملے کے باعث تین ا فراد ہوئے، سواد احمد نامی ایک خاتون نے بتایا:’’میں اُس وقت ناشتہ کر رہی تھی، جب ایک طاقتور بم دھماکے نے عمارت کو ہلا کر رکھ دیا اور میرے اپارٹمنٹ کی کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کر میری کھانے کی میز پر بکھر گئے۔ میں بے انتہا خوفزدہ ہو گئی۔ مجھے پڑوس میں عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں آئیں۔ میں نے بھی چلانا شروع کر دیا۔ مجھے موت سے بہت خوف آتا ہے۔‘‘
2007ء میں القاعدہ کو زیر زمین جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اُس کے بعد آنے والے برسوں میں پُر تشدد واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی تاہم اب اس طرح کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصر گروپ عراق باڈی کاؤنٹ کے مطابق رواں مہینے کے دوران پُر تشدد واقعات میں اب تک 900 جبکہ اس سال کے دوران اب تک تقریباً تین ہزار شہری مارے جا چکے ہیں۔
باغیوں نے عراق کی سنی اقلیت میں پائے جانے والے غم و غصے کو ہوا دی ہے۔ سنیوں کو گلہ ہے کہ شیعہ قیادت میں قائم حکومت میں اُن کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ اس سال اپریل میں سنیوں کے ایک احتجاجی کیمپ کے خلاف کارروائی پر عسکریت پسندوں کی جانب سے پُر تشدد ردعمل دیکھنے میں آیا تھا، جو ابھی تک بھی تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔