1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں 2008ء کے بعد سے اب تک کی شدید ترین خونریزی

مقبول ملک15 جولائی 2013

عراق میں نئے خونریز واقعات اور ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں بظاہر منظم انداز میں کیے گئے کئی سلسلے وار بم حملوں میں مزید کم از کم 33 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ درجنوں نئی ہلاکتیں کل اتوار کے روز ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/197bg
تصویر: Reuters

بغداد سے آمدہ اطلاعات کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ان تازہ ہلاکتوں کے بعد ملک میں ماہ رواں کے دوران پرتشدد واقعات میں مارے جانے والے افراد کی مجموعی تعداد 370 سے تجاوز کر گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ عراق کو اس وقت سن 2008 سے لے کر آج تک کی شدید ترین خونریزی کا سامنا ہے۔

سکیورٹی اور طبی ذرائع کے بقول سال رواں کے دوران عراق میں جاری بدامنی میں اب تک دو ہزار چھ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ عراق کو امریکی قیادت میں اتحادیوں کی فوجی مداخلت کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا کرتے ہوئے اب برسوں بیت چکے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس ایک بات نے اس سال خونریزی کو کم کرنے کے بجائے مزید ہوا دینے کا کام کیا ہے، وہ سنی عربوں کی اقلیتی آبادی میں پایا جانے والا وہ عدم اطمینان ہے، جس کا شیعہ مسلمانوں کی سربراہی میں قائم بغداد میں موجودہ ملکی حکومت کوئی بھی تدارک کرنے میں ناکام رہی ہے۔

Anschläge in Bagdad Juli 2013
عراق کو اس وقت سن 2008 سے لے کر آج تک کی شدید ترین خونریزی کا سامنا ہےتصویر: Reuters

رواں مہینے کے دوران کل اتوار کا دن عراق میں ایسا مسلسل چوتھا دن تھا کہ وہاں ہر روز مختلف حملوں میں 30 سے زائد شہری مارے گئے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اپنی جگہ تشویش کا باعث ہے کہ جولائی کے پہلے دو ہفتوں کے دوران عراق کے مختلف حصوں میں خونریزی روزانہ اوسطاﹰ 26 افراد کی ہلاکت کا سبب بنی۔

عراق میں اس وقت جو خونریزی مسلسل شہری ہلاکتوں کی وجہ بن رہی ہے، اس پر زیادہ تر سرکردہ سیاستدان اور مذہبی رہنما خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ قومی سطح کی سیاسی قیادت میں سے اگر کسی نے بڑھتے ہوئے بم حملوں کی مذمت کی ہے تو وہ ملکی پارلیمان کے اسپیکر اسامہ النجیفی تھے۔

دوسری طرف کئی تبصرہ نگاروں اور عام شہریوں کو یہ بات بھی بری طرح محسوس ہوئی کہ جب عمان کو ہرا کر عراق نے ورلڈ ملٹری فٹ بال کپ جیتا تو شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں عراقی عوام اور فوج کو مبارکباد دینے میں تو کوئی دیر نہ کی لیکن اس بیان میں جولائی کے صرف پہلے دو ہفتوں کے دوران 370 سے زائد ہلاکتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

صرف اتوار کے روز عراق کے جن صوبوں یا شہروں میں ہلاکت خیز بم حملے کیے گئے، ان میں کُوت، ہِلہ، کربلا، ناصریہ، بصرہ، نینوہ کا دارالحکومت موصل، فلوجہ اور کرکوک بھی شامل تھے۔

اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اتنے زیادہ ہلاکت خیز حملے سلامتی کی بہت خراب صورت حال کا پتہ دیتے ہیں لیکن اگر کئی دوسرے شعبوں میں بنیادی حکومتی فرائض کی انجام دہی کی بات بھی کی جائے، تو عراقی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں