فلسطینی یوم نکبہ، گھر بدری کے 66 سال
15 مئی 2014جمعرات پندرہ مئی کو راملہ کے ساتھ ساتھ مغربی اردن کے دیگر مقامات پر بھی دوپہر کے وقت چھیاسٹھ سیکنڈز کے لیے سائرن بجائے گئے، جن کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ النکبۃ یا ’تباہی‘ کو پورے چھیاسٹھ سال بیت گئے ہیں۔ فلسطینی اپنی شکست اور گھر بدری کو النکبۃ کا نام دیتے ہیں۔
اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان ٹھیک چھیاسٹھ برس پہلے پندرہ مئی 1948ء کو کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اسرائیل نے قریبی عرب ممالک کی اَفواج کے ساتھ ساتھ مقامی عربوں کو بھی شکست دے دی تھی۔
اس لڑائی کے دوران لاکھوں فلسطینی باشندے جھڑپوں کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے فرار ہو گئے تھے یا پھر اُنہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ بے گھر ہو جانے والے یہ فلسطینی یا پھر اُن کی آئندہ نسلیں آج بھی مغربی اردن اور غزہ پٹی کے ساتھ ساتھ ہمسایہ عرب ملکوں شام، لبنان اور اردن میں آباد ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان فلسطینیوں کی تعداد کئی ملین تک پہنچ چکی ہے۔ ہر سال پندرہ مئی کو یوم نکبہ مناتے ہوئے ان بکھرے ہوئے فلسطینیوں اور اُن کی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے اُس سوال کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے، جو عرب اسرائیلی تنازعے میں مرکزی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
ان لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے اُن امن مذاکرات میں بھی کلیدی حیثیت حاصل رہی، جو گزشتہ مہینے ناکام ہو گئے تھے اور جن کا بنیادی مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل تھا۔
اسرائیل چھیاسٹھ سال پہلے بے گھر ہو جانے والے فلسطینی مہاجرین کی ایک چھوٹی سی تعداد کو تو اپنے ہاں پھر سے قبول کرنے پر تیار ہے تاہم اُس کا موقف یہ ہے کہ باقی تمام فلسطینیوں کو یا تو امن مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی آزاد فلسطینی ریاست میں آباد کیا جانا چاہیے اور یا پھر اُنہیں اُن ممالک ہی میں رہنا چاہیے، جہاں وہ آج کل رہ رہے ہیں۔
گزشتہ شب یوم نکبہ پر اپنے خصوصی نشریاتی خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ ’اسرائیل کے رہنماؤں کے لیے یہ سمجھ لینے کا وقت آ گیا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے فلسطین کے سوا کوئی اور وطن نہیں ہے اور ہم یہیں رہیں گے‘۔ عباس نے کہا:’’وقت آ گیا ہے کہ جدید تارخ کے اس طویل ترین قبضے کو ختم کیا جائے۔‘‘
خود فلسطینی بھی 2007ء سے دو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ تب انتہا پسند تنظیم حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ کا کنٹرول سیکولر اور مغرب نواز عباس حکومت کی فورسز سے چھین لیا تھا۔ آج کل غزہ پر حماس کی حکومت ہے جبکہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا کنٹرول عباس اور فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہے۔ حال ہی میں دونوں فلسطینی دھڑے ایک دوسرے کے کچھ قریب آئے ہیں اور دونوں کے باہمی اختلافات ختم ہونے کی منزل کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ شب اپنے خطاب میں محمود عباس نے کہا کہ پھوٹ کو ختم کرنا فلسطینیوں کے لیے اس وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔