جان کیری مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کے لیے پر امید
15 مئی 2014فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے حماس کے ساتھ متحدہ حکومت سازی کے فیصلے پر ڈٹے رہنے کے باوجود امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی کی امید ظاہر کی ہے۔ گزشتہ ماہ محمود عباس کی سیاسی پارٹٰی فتح نے حماس کے ساتھ عبوری حکومت کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے امن مذاکرات سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے بقول فتح ایک وقت میں اسرائیل اور حماس دونوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا، یورپی یونین اور اسرائیل نے حماس کو ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دے رکھا ہے۔ 2007ء سے حماس غزہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ جنگجو گروہ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرتا ہے۔
بدھ کے دن لندن کے ایک ہوٹل میں جان کیری اور محمود عباس نے دو گھنٹے تک مذاکرات کیے۔ واشنگٹن حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ جان کیری دراصل شام کی خانہ جنگی اور یوکرائن کے تنازعے پر مذاکرات کے لیے لندن پہنچے تھے، جہاں انہوں نے محمود عباس سے بھی ایک غیر رسمی ملاقات کی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اس دوران کیری نے تعطل کے شکار امن مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خاتون ترجمان جینیفر ساکی نے اس ملاقات کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے، ’’امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ واضح کیا ہے کہ امن کے راستہ ابھی بھی کھلا ہوا ہے تاہم اطراف نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کو تیار ہیں۔‘‘ ساکی کے بقول کیری نے اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات نہ اٹھائیں، جو قیام امن کے لیے مددگار نہیں ہیں۔
محمود عباس رواں ماہ کے اختتام تک حماس کے ساتھ ایک عبوری حکومت کی تشکیل کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے عالمی برداری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تشکیل پانے والی متحدہ حکومت اسرائیل کے ساتھ قیام امن کے معاہدے پر عمل پیرا ہونے کی پابند ہو گی۔ اگرچہ اسرائیل نے کہہ رکھا ہے کہ وہ کسی ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا، جس میں حماس شامل ہو گی تاہم جان کیری اور ساکی نے زور دیا ہے کہ کسی بھی نئی فلسطینی حکومت کو اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا ہو گا اور ماضی میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے تشدد کو مسترد کرنا ہو گا۔