1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا داعش افغانستان میں قدم جما رهی ہے؟

شادی خان سيف، کابل9 فروری 2015

افغان حکومت نے سابق طالبان کمانڈر ملا عبدالرؤف خادم، جس نے حال ہی میں طالبان سے علیحدگی کے بعد داعش کے ساته الحاق کا اعلان کیا تها، کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EYeN
چند ماہ قبل افغان دارالحکومت کابل میں داعش کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں کئی ہزار افراد شریک ہوئے
چند ماہ قبل افغان دارالحکومت کابل میں داعش کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں کئی ہزار افراد شریک ہوئےتصویر: Hambastagi

ملک کے جنوبی صوبے ہلمند سے موصوله اطلاعات کے مطابق خادم اور اس کے چار ساتهی افغانستان متعینہ بین الاقوامی سلامتی کی معاون فورس ISAF کے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ خادم طالبان دور میں کابل اور ہرات کا کور کمانڈر ره چکا تها۔ اس کی ہلاکت کے بارے میں گرچه ہلمند کے پولیس چیف میجر جنرل نبی ملاخیل اور نگران گورنر جان رسول یار دونوں نے ڈرون حملے کا ذکر کیا ہے تاہم خفیه ادارے ملی امنیت (نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سکیورٹی) نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے که خادم اور اس کے ساتهی قریب ایک ماه سے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں تهے اور آج ایک خصوصی آپریشن میں مارے گئے۔

گزشته کچھ عرصے سے افغانستان اور ملحقه پاکستان سے داعش بابت اطلاعات سننے کو مل رہی ہیں لیکن ہنوذ اس ضمن میں دولت الاسلامیه عراق وشام کی مرکزی قیادت کی تصدیق یا پهر ان دو ملکوں میں داعش سے ملحق غیر مقامی عسکریت پسندوں کی فعالیت کے ٹهوس ثبوت منظر عام پر نہیں آئے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ملا عبدالرؤف ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے یا افغان فوج کے ایک خصوصی آپریشن میں مارے گئے
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ملا عبدالرؤف ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے یا افغان فوج کے ایک خصوصی آپریشن میں مارے گئےتصویر: picture-alliance/AP/Air Force/L. Pratt

افغانستان کی فضائیه کے سابق سربراه جنرل عتیق الله امرخیل کے بقول حقیقت میں ان دونوں ممالک میں پہلے سے موجود عسکریت پسند داعش کا نام استعمال کرکے خوف پهیلارہے ہیں اور یوں اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں:’’افغانستان میں کچه طالبان کمانڈروں نے سابقه وفاداریاں ترک کر کے نئے گروپس بنا لیے ہیں، طالبان کے سفید جهنڈے کو چهوڑ کر داعش کا سیاه پرچم اور سیاه پگڑیاں پہن لی ہیں۔‘‘

امرخیل کے بقول اب افغان فوج ماضی قریب کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے اور سرحدوں کو منظم انداز میں سنبهال رکھا ہے، لہٰذا داعش کے لشکروں کی یہاں آمد کے امکانات نہیں ہیں:’’ایک بات البته وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ہے که غالب قوتوں (امریکا / مغرب) کی اس خطے بابت طویل المدتی پالیسی کیا ہے؟ کیا وه ان عسکریت پسندوں کو افغانستان کے راستے مثال کے طور پر روس یا چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس بارے میں وقت ہی فیصله کرے گا۔‘‘

داعش کے ساته وفاداری کا اعلان کرنے والے عبدالرؤف خادم کے بارے میں کہا جاتا ہے که اس نے گوانتاناموبے جیل میں وقت گزارنے کے بعد سلفی عقیده اپنا لیا تھا اور اس کے مقامی طالبان کے ساتھ اختلافات بهی چل رہے تهے۔

اکتوبر 2014ء میں کابل میں داعش کے خلاف اور شامی سرحدی شہر کوبانی کے حق میں ہونے والے مظاہرے کا ایک اور منظر
اکتوبر 2014ء میں کابل میں داعش کے خلاف اور شامی سرحدی شہر کوبانی کے حق میں ہونے والے مظاہرے کا ایک اور منظرتصویر: Hambastagi

ہلمند کے علاوه غزنی، لوگر، فراه اور لوگر صوبوں سے بهی ’’سیاه پرچم‘‘ والے عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی کی اطلاعات گزشته کچه عرصے سے آرہی تهیں۔ ان صوبوں کی مقامی انتظامیه ان عسکریت پسندوں کو داعش کا نام دے رہی تهی جبکه عسکری قیادت انهیں طالبان سے الگ هونے والے گروه قرار دے رہی ہے۔

کئی افغانوں کی طرح مقامی صحافی مطیع الله اباسین کو بهی اس ضمن میں تشویش لاحق ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں اباسین نے کہا که اب افغانستان کے قدرے پرامن شمالی علاقوں میں ماضی کی نسبت بدامنی میں اضافه ہوا ہے، جو ان کے بقول اس بات کا ثبوت ہے که طالبان یا داعش وسطی ایشیا کے راستے روس اور چین کی چانب پیش قدمی کی ٹهانے ہوئے هیں۔

گزشته برس ستمبر میں قیادت سنبهالنے والے افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے ساتھ روابط اس ضمن میں ایک نئے پہلو کو جنم دیتے هیں۔ تجزیه نگار داؤد مرادیان کے بقول چین نے افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کی بحالی میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے، اس کے پیچهے بهی دراصل اسی نوعیت کے خدشات ہیں۔ مرادیان کے بقول خطے کی سلامتی کے لیے بیجنگ کی کوششیں پاکستان، افغانستان اور پورے خطے کے لیے خوش آئند بات ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں