پاکستان اور افغانستان ميں اسلامک اسٹيٹ کا مستقبل کيا؟
2 نومبر 2014کچھ عرصہ قبل پاکستان کے شمال مغربی حصوں ميں ايسے اشتہارات تقسيم کيے گئے تھے، جن ميں اسلامک اسٹيٹ کی حمايت کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ بعد ازاں اب تک پاکستان تحريک طالبان کے کم از کم پانچ کمانڈر اور افغان طالبان کے تين ارکان اسلامک اسٹيٹ کی حمايت کا اعلان کر چکے ہيں۔ دونوں ممالک کے کئی بڑے شہروں ميں ديواروں اور عوامی مقامات پر اس شدت پسند تنظيم کی حمایت میں پيغامات ديکھے جا سکتے ہيں حتیٰ کہ کابل يونيورسٹی ميں تو ايسی ہی اشتہاری مہم کے سلسلے ميں متعدد طلباء کو حراست ميں بھی ليا جا چکا ہے۔
تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نيوز ايجنسی اے ايف پی کی طرف سے متعدد شدت پسندوں، سرکاری اہلکاروں اور سکيورٹی ذرائع کے ساتھ کی جانے والی بات چيت ميں ان تمام ہی کا يہ کہنا ہے کہ تاحال اسلامک اسٹيٹ گروپ خطے ميں کوئی خاص مقام نہيں بنا سکا ہے اور گروپ کو اس وقت حاصل حمايت ’مقامی اور انفرادی‘ نوعيت ہی کی ہے۔ يہ امر البتہ اہم ہے کہ مشرق وسطی ميں اس گروپ کی کاميابی اور مسلسل پيش قدمی کے سبب پاکستان و افغانستان ميں ايسے شدت پسند گروپوں کو محدود رکھنے والے حکام الجھن کا شکار ہيں۔
پاکستان ميں سلامتی سے متعلق امور کے ايک ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹيٹ تشدد سے اجتناب برتنے والے اور پر تشدد، دونوں ہی اقسام کے مذہبی گروپوں کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’حکام کو خدشہ ہے کہ تنظيم اسلامک اسٹيٹ، تحريک طالبان پاکستان اور ديگر ايسے گروپوں کے ساتھ مل کر سرحد کے دونوں اطراف پھيل سکتی ہے۔‘‘
کچھ ہفتے قبل پاکستان ميں انسداد دہشت گردی کی قومی ايجنسی کی طرف سے قريب ايک درجن حکومتی ايجنسيوں کو اسلامک اسٹيٹ سے بچنے کے حوالے سے خطوط تحرير کيے گئے تھے۔ ايجنسی کے مطابق اسلامک اسٹيٹ کی پيش قدمی پاکستان ميں خاصے خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے، جہاں دو سو سے زائد ايسی تنظيميں سرگرم ہيں۔ يہ خطوط ايسے وقت ميں جاری کيے گئے، جب پاکستانی فوج نے شمال مغربی قبائلی علاقوں ميں شدت پسند عناصر کے خلاف فوجی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔ فوجی کارروائی کے سبب تحريک طالبان پاکستان کا زور ٹوٹتا دکھائی ديتا ہے تاہم پچھلے کچھ دنوں ميں اس تنظيم کے ساتھ چند گروپوں کی عليحدگی سے ايسے خدشات بھی جنم لے رہے ہيں کہ ممکنہ طور پر اس مہم پر اسلامک اسٹيٹ قابض نہ ہو جائے۔ يہ امر اہم ہے کہ پاکستانی طالبان القاعدہ اور اسلامک اسٹيٹ کی حمايت کا اعلان کر چکے ہيں تاہم عملی طور پر ان کا حصہ نہيں ہيں۔
دريں اثناء ايک شدت پسند نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا ہے کہ گروپوں کے مرکزی دھڑے سے عليحدگی اختيار کر لينے والے چھوٹے گروپ مالی مشکلات کا شکار ہيں اور اسی ليے اسلامک اسٹيٹ يا داعش سے رابطہ کر رہے ہيں۔ امريکی اہلکاروں کا ايسا ماننا ہے کہ داعش کے جہادی تيل کی غير قانونی فروخت، اغواء برائے تاوان اور ديگر کئی پر تشدد کارروائيوں سے کافی رقم اکھٹا کر رہے ہيں، جو دوسروں کو اس جانب راغب ہونے ميں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ايف پی کی رپورٹ کے مطابق يہ بات بھی اہم ہے کہ اس خطے ميں پھيلنے کے ليے اسلامک اسٹيٹ کو رياست کی رٹ کو بھی کمزور بنانا ہو گا تاہم عراق اور شام کے مقابلے ميں پاکستان کا رياستی ڈھانچہ کافی مضبوط ہے اور اسے ملک کی طاقت ور فوج کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔ افغانستان البتہ نازک ہے، بالخصوص پاکستان کی سرحد کے قريب واقع پہاڑی علاقوں پر مشتمل صوبے کنڑ اور نورستان۔ کابل حکام کے مطابق کنڑ ميں شدت پسندوں کا کم از کم ايک تربيتی کيمپ ايسا ہے، جہاں اسلامک اسٹيٹ کی خاصی حمايت پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے بھی خدشات موجود ہيں کہ اسلامک اسٹيٹ کے جہادی سوشل ميڈيا پر فيس بُک اور ٹوئٹر جيسی سروسز استعمال کرتے ہوئے اور پراپيگنڈا کرتے ہوئے افغان اور پاکستانی نوجوانوں کو اس جانب راغب کر سکتے ہيں۔ پاکستانی علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر الاشرفی کا کہنا ہے کہ پاکستان ميں عوام کو انصاف کی عدم دستيابی، بد عنوانی اور حکومت کی نا اہلی جيسے مسائل کا سامنا ہے اور ايسی صورتحال ميں لوگوں کو ايک مخالف سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بقول اسلامک اسٹيٹ مذہبی بنياد پر ايسی ايک سمت مہيا کرتی ہے۔