1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرم: متحارب فریقوں میں امن معاہدے کے بعد احتجاجی مظاہرے ختم

2 جنوری 2025

مجلس وحدت مسلمین نے کرم میں متحارب دھڑوں کے درمیان امن معاہدے کے بعد ملک گیر دھرنے اور احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مقامی جرگہ امن معاہدے کے لیے کام کر رہا تھا اور امکان ہے کہ اب کرم میں سڑکیں دوبارہ کھول دی جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/4okGc
لاہور میں کرم تشدد کے خلاف مظاہرہ
کرم میں ہونے والے تشدد کے خلاف پاکستان کے متعدد شہروں میں بھی احتجاجی مظاہر ہوتے رہے ہیں، اور متعدد شہروں میں تو دھرنا جاری تھیتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے متحارب فریقوں کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) نے ملکی سطح پر اپنے احتجاجی دھرنوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پاراچنار میں مرکزی شاہراہ کی بندش کے ردعمل میں اس تنظیم نے کراچی میں شاہراہ فیصل اور شاہراہ پاکستان جیسے متعدد اہم مقامات پر احتجاجی مظاہرے جاری شروع کر رکھے تھے، جس کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑ رہا تھا اور روزمرہ کے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا تھا۔

کرم میں کشیدگی میں کمی کی کوششیں مشکلات کا شکار

کوہاٹ میں جس امن معاہدے پر کرم کے حریف قبائل نے دستخط کیے ہیں، اس میں دونوں جانب سے ہتھیار ڈالنے اور بنکر گرانے کی شرط بھی رکھی گئی ہے اور امن معاہدے کے بعد ہی ایم ڈبلیو ایم نے کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں اپنے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا۔

بدھ کی دیر رات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ کئی مہینوں سے کرم میں سڑکیں بند ہیں، جس سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ راستوں کی بندش کی وجہ سے ضروری ادویات تک دستیاب نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ مر رہے ہیں۔

کُرم میں مزید 13 ہلاکتیں

ان کا کہنا تھا، "کرم کی صورتحال غزہ جیسی ہے، ہم نے ان مظلوموں کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے توجہ نہ ملنے کے بعد ہم نے کراچی سے گلگت بلتستان تک ملک بھر میں احتجاج شروع کیا تھا۔"

علامہ راجہ ناصر عباس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ امن معاہدے کی شرائط پر تیزی سے عمل درآمد کرے اور جب تک اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوتا، اس وقت تک کرم کی اہم سڑکوں کو بند رکھنے کی تجویز دی۔

فرقہ وارانہ تشدد: کرم میں 110 سے زائد اموات کے بعد سیزفائر

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ احتجاج فوری طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور امداد لے کر 70 سے 80 گاڑیوں کا قافلہ ہفتے کو روانہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کرم کے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی خون رائیگاں نہ جائے۔

پاکستانی ضلع کرم میں ایک ہفتے میں ہلاکتوں کی تعداد اب نواسی

پاراچنار میں خواتین کا احتجاج
کرم میں کئی دہائیوں پرانے زمینی تنازعات سے پنپنے والی جھڑپوں کے دوران گزشتہ ماہ کے دوران کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے، جس کے خلاف مقامی سطح پر بھی احتجاج ہوتا رہا ہے تصویر: Arif Ali/AFP

متحارب گروہوں میں امن معاہدہ

اس سے پہلے بدھ کے روز ہی خیبر پختونخوا کی حکومت نے کہا تھا کہ تشدد کے درمیان جنگ بندی کے لیے تین ہفتوں سے زیادہ کی کوششوں کے بعد بالآخر کرم کے متحارب فریقوں نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے جاری ایک بیان میں اس پیشرفت کا اعلان کیا تھا۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ امن معاہدہ ضلع میں "امن اور ترقی کے نئے دور" کا آغاز کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد ہی ہنگامہ خیز ضلع میں امن و سلامتی بحال ہو جائے گی اور ہفتے کو پاراچنار کے لیے قافلے بھی روانہ  ہوں گے۔

پاکستانی ضلع کرم میں تین روز میں بیاسی ہلاکتیں، ڈیڑھ سو سے زائد زخمی

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس پیشرفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط کرم مسئلہ کے پائیدار حل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے صوبائی حکومت نے کوششیں کی، جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔

ان کا کہنا تھا، "میں اس اہم قدم کا خیر مقدم کرتا ہوں اور تمام شراکت داروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ معاہدہ کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔"

کرم میں مسافر قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ فریقین کے درمیان نفرت پھیلانے والے عناصر کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ خطے کے لوگ امن پسند ہیں۔ "میں فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نفرت پھیلانے والے عناصر کو مسترد کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ کرم کے عوام کو درپیش مسائل جلد حل ہوں اور وہاں معمولات زندگی بحال ہوں۔"

وزیراعلیٰ نے کہا کہ لڑائی اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، مسائل اور تنازعات کو ہمیشہ مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، "تشدد ہمیشہ تشدد کو جنم دیتا ہے، جو فریقین، علاقے یا حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔"

پاکستان: کرم کا 'دہشت گردانہ حملہ سراسر حیوانیت' ہے، شہباز شریف

واضح رہے کہ ایک گرینڈ جرگہ امن معاہدے کے لیے کام کر رہا تھا، جس کے نتیجے میں کرم میں سڑکیں دوبارہ کھولی جائیں گی۔ منگل کے روز ان کوششوں میں اس وقت رکاوٹ پیدا ہوئی، جب لوئر کرم کے دو نمائندے دستیاب نہیں تھے اور اسی کی وجہ سے متحارب فریقوں کے درمیان ایک معاہدے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔

کرم میں کئی دہائیوں پرانے زمینی تنازعات سے پنپنے والی جھڑپوں کے دوران گزشتہ ماہ کے دوران کم از کم 130 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ طویل سڑکوں کی ہفتوں تک بندش کی وجہ سے علاقے میں خوراک اور ادویات کی قلت کی اطلاعات ہیں۔ اپر کرم میں بھی پاراچنار کے رہائشی بھی اس کے خلاف 20 دسمبر سے دھرنا دے رہے تھے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں) 

پشاور میں مقیم ایک قبائلی لڑکی ہزاروں ڈالرز کمانے لگی