کرم میں کشیدگی میں کمی کی کوششیں مشکلات کا شکار
30 دسمبر 2024صوبائی حکومت کو یقین تھا کہ ہفتے کے کرم تنازعے کے فریقن کے درمیان کسی امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے، تاہم مقامی عمائدین کے ذریعے مصالحتی جرگے بدستور جاری ہیں۔
حکومت کی جانب سے ایپکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں فریقین کو بھاری اسلحہ جمع کرانے اور بنکر ختم کرنے کے ساتھ معاہدے کے چودہ نکات شامل ہیں۔
تنازعے کا پس منظر
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم میں تنازعات کئی سالوں سے جاری ہیں۔حالیہ مسلح کشیدگی ضلع کُرم کے علاقے بوشیرہ میں جائیداد کے تنازع سے شروع ہوئی۔ یہ تنازعہ بڑھ کر لوئر کرم سے سینٹرل کُرم تک پہنچ گیا۔ مقامی قبائلی رہنماؤں اور کوہاٹ اور ہنگو جیسے نواحی اضلاع کے عمائدین نے قبائلی روایات کے مطابق گفت و شنید کے ذریعے مرکزی شاہراہ کو ٹریفک کے لیے کھلوا دیا تھا، تاہم، اس دوران ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ ایسے ہی ایک اور واقعے میں ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد مرکزی شاہراہ ایک بار پھر بند کر دی گئی۔
35 دن کی بندش کے بعد مقامی لوگوں نے شاہراہ کھولنے کے لیے 25 کلومیٹر تک پیدل مارچ کیا، جس پر انتظامیہ نے شاہراہ کو مشروط طور پر سیکیورٹی کے حصار میں آمدورفت کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران ایک قافلہ پاراچنار سے پشاور اور پشاور سے پاراچنار روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نومبر میں اسی شاہراہ پر مسافر گاڑیوں کو نامعلوم افراد نے نشانہ بنایا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت 42 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کرم کے بگن نامی گاؤں سمیت کئی دیگر علاقوں میں گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ یوں پاراچنار پشاور شاہراہ کی بندش کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل کے مابین فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں اطلاعات کے مطابقاب تک ڈیڑھ سو افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہوئے۔
صوبائی حکومت مقامی عمائدین کے ذریعے اس دیرینہ تنازعہ کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم اب تک اس میں کامیابی نہیں ملی، جبکہ فریقین وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے رویے اور عدم دلچسپی سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ادویات اوراشیائے خوردنوش کی سپلائی کیلئے فضائی سروس کا آغاز
ڈھائی ماہ سے مرکزی شاہراہ کی بندش سے ضلع کُرم کے عوام کو اشیائے خورونوش اورادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ اس مسلے کے حل کے لیے صوبائی حکومت نے فضائی سروس کا آغاز کیا ہے۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاں مقامی آبادی کے لیے خوردنی اشیاء اور ادویات فراہم کی جا رہی ہے، وہاں بیمار اوربیرون ملک جانے والے شہریوں کوریسکو کرکے پشاور بھی پہنچا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومنت کے ترجمان کے مطابق اب تک 613 افراد کو ائیرٹرانسپورٹ کے ذریعے متاثرہ علاقے سے نکالا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پختونخواعلی امین گنڈاپور کا کہنا تھا، ''بچوں اور خواتین سمیت جرگہ ممبران کو بھی یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے جب تک شاہراہ بند ہو ہیلی کاپٹر سروس جاری رکھیں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرم کے شہریوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
حکومتی ترجمان بیرسٹرسیف کا موقف
ہفتے کو جرگہ نے معاہدے کا اعلان کرنا تھا تاہم اس سلسلے میں خیبر پختونخواحکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا تھا، ''دو دن کے وقفے کے بعد جرگہ منگل کو دوبارہ بات چیت کا آغاز کے گا۔‘‘ تمام اہم نکات پراتفاق رائے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمائدین نے دو دن کا وقت مانگا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی کے مطابق علاقے میں بنکرز اوراسلحے کے خاتمےکو یقینی بنایا جائے گا۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ یہ ایک صدی پر محیط تنازعہ ہے، جس کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے کوشاں ہیں۔
معاہدے کے اہم نکات
اس معاہدے کے کل 14نکات ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بنکرز اور بھاری اسلحہ ایک ماہ کے اندر ختم کیا جائے گا اور اس کے لیے قواعد مشترکہ کمیٹی طے کرے گی۔ اس کے علاوہ سڑکوں اورشاہر اہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ لوکل امن کمیٹی کسی بھی تنازعے کو فوری حل کرے گی، ناکامی کی صورت میں ضلعی کمیٹی اور اگر وہ بھی ناکام رہی تو گرینڈ جرگہ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے مداخلت کریں گے۔ معاہدے کے مسودے کے مطابق کسی بھی ناخوش گوار واقے کی صورت میں مقامی گاؤں کے شہری ذمہ دار ہوں گے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ زمین اور جائیداد سے متعلق تنازعات اراضی کمیشن اور قبائلی رواج کے مطابق حل کیے جائیں گے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جب کہ ایسے افراد کو کوئی بھی قبیلہ پناہ نہیں دے گا۔
ضلع کُرم کو آفت زدہ قراردینے کا فیصلہ
صوبائی حکومت نے گذشتہ کئی ماہ سے ضلع کرم میں کشیدگی کی وجہ سے اسے آفت زدہ قراردینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تمام محکموں سے تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صوبائی حکومت نے گذشتہ کابینہ اجلاس کے دوران بھی کرم کے لیے ریلیف کے کاموں کی منظوری دی جب کہ کرم کوآفت زدہ قرار دینے کے بعد ان کے تمام ٹیکسز معاف کیے جائیں گے۔
پشاور پہنچنے والے کُرم کے باشندے ریحام محمد کی ڈی ڈبلیو سے بات چیت
کرم سےبدامنی کی وجہ سے خاندان سمیت نقل مکانی کرنے والے ریحان محمد نے ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر بتایا، '' 22 نومبر کے بعد میرے گاؤں بگن اور دیگر علاقوں پر لشکر کشی کی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک 15 ہزار لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ زیادہ تر لوگ قریبی شہر ٹل پہنچ گئے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد پشاور اورہنگو منتقل ہوئی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بگن کیسب سے بڑی مارکیٹ کو نذر آتش کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق800 میں سے630 رجسٹرڈ دکانیں اور760 گھر جلائے گئے ہیں۔ اب وہاں کے باقی لوگوں کو اشیائے ضرورت کے لیے 30 کلومیٹر دور ٹل بازارجانا پڑتا ہے۔
پشاور میں احتجاجی کیمپ تیسرے روز بھی جاری
وفاقی اورصوبائی حکومت کی جانب سے کرم تنازعات کے حل میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ضلع کرم کے سیاسی، مذہبی اورسماجی شخصیات متحرک ہیں اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے نہ صرف میڈیا کے ذریعے لاکھوں افراد کی مشکلات کے بارے میں حکمرانوں کو آگاہ کرنا شروع کیا بلکہ بعض تو باقاعدہ احتجاجی کیمپ لگا کر کرم کی صورتحال کے حوالے سےعوام کو آگاہ کر رہے ہیں۔ اس طرح کے احتجاجی کیمپ پشاور سمیت مختلف شہروں میں لگائے گئے ہیں۔ پشاورکینٹ میں لگائے گئے کیمپ کے مقررین کا کہنا ہے، ''گذشتہ ڈھائی ماہ سے کرم کےعوام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے امداد اور مسائل کا حل تو دور کی بات ہمدردی کے دو الفاظ تک ادا نہ ہوسکے‘‘