1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان ملٹری کورٹس کے ٹرائل ، قانون کا مذاق

عثمان چیمہ
1 جنوری 2025

پاکستان میں نافذ حالیہ قوانین اور کورٹ کے فیصلے نہ صرف ملٹری کورٹس کو غیر آئنی طور پر سیولینز کا ٹرائل کرنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ملٹری کورٹس میں کی جانے والی زیادتیوں کی تفصیلات بتانے پر بھی سزا کا حقدار ٹھہراتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ojK5
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد ملٹری کورٹس نے 9 مئی کے 85 ملزمان کو دو سے دس سال تک کی سزائیں سنائیںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

حال ہی میں سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد ملٹری کورٹس نے 9 مئی کے 85 ملزمان کو دو سے دس سال تک کی سزائیں سنائیں ۔ ڈی ڈبلیو نے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے طریقہ کار اور ملزمان کے ساتھ دوران حراست سلوک اور انصاف تک رسائی کے حوالے سے تحقیق کی جس کے نتیجے میں پاکستان میں رائج قوانین کے حوالے سے ایسے حقائق کے بارے پتہ چلا جو قانونی ماہرین کے کہنے کے مطابق انتہائی پریشان کن ہیں اور جن کوہوتے ہوئے انصاف کی فراہمی ممکن نہیں۔

پاکستانی فوجی عدالت کی طرف سے مزید ساٹھ شہریوں کو قید کی سزائیں

وکلاء اور ملٹری کورٹس سے حالیہ سزا یافتہ لوگوں کے قریبی عزیزوں سے جب بات کی گئی تو انہوں نے یہ بتایا کہ ملٹری کورٹس میں جس طرح قوانین کو پامال کیا گیا وہ تو ایک طرف بلکہ پاکستان میں ایک ایسا بھی قانون ہے جو وکلا اور ملزمان کو پابند کرتا ہے کہ وہ ملٹری کورٹس میں ہونے والی کارروائی کے بارے تفصیلات بھی بیان نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے والے کے خلاف پرچہ کاٹا جا سکتا ہے۔

کونسا قانون کارروائی کی تفصیلات دینے سے روکتا ہے؟

قانونی ماہرین نے اس بارے میں بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ء  جو کہ انگریز دور کا بنایا ہوا قانون ہے وہ  پاکستان میں ابھی تک رائج  ہے۔ اس قانون کے سیکشن 14 کے تحت نہ صرف عام لوگوں بلکہ ملزمان کے ورثاء کوبھی عدالتی کارروائی کو دیکھنے سے روکا جا سکتا ہے اور عدالتی کارروائی میں شامل لوگوں جیسے کہ وکلا کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ کارروائی کے متعلق تفصیلات بیان نہ کریں۔

سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟

حسان نیازی جو خود ایک وکیل بھی ہیں اور جنہیں ملٹری کورٹس نے دس سال کی سزا سنائی ہے ،کے والد حفیظ اللہ نیازی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اور سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ملٹری کورٹس میں ہونے والی کارروائی جو انہیں پتہ چلی ہے کو  ہو بہو بیان نہیں کر سکتے البتہ صرف اتنا بتا سکتے ہیں کہ فیصلے کرتے وقت کسی بھی قانونی پہلو کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور صرف اپنے من پسند فیصلے سنائے گئے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے بیٹے کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس پر اسے دس سال کی سزا دی جا سکتی۔ حسان کے خلاف جو گواہ پیش کیے گئے انہوں نے حسان کو شناخت کرنے سے انکار کیا۔ لہٰذا انہیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے کس بنیاد پر سزا دی گئی ۔کسی مبہم ویڈیو پر، اختلافی ٹویٹس پر یا کسی اور وجہ سے؟‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ظلم ہے کہ سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جا رہے ہیں جو نہ وسائل رکھتی ہیں اور نہ ہی شواہد کی بنیاد پر مقدمات سننے کی صلاحیت۔ حسان نے خود اپنا مقدمہ پیش کیا لیکن ابھی تک تفصیلی فیصلہ فراہم نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اسلام آباد میں پولیس کے ساتھ تصادم
پاکستان میں سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے پر بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا چُکا ہےتصویر: Irtisham Ahmed/picture alliance/AP

وکلا کا کہنا تھا کہ جو کارروائی بتائی نہیں جا سکتی وہ شفاف بھی نہیں ہو سکتی۔ ملٹری کورٹس کے کچھ ملزمان کے کیسز  لڑنے والی ایک وکیل خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ قانون تو انتہائی حساس معاملات، جن میں کسی ملکی راز یا ملٹری کی حساس تنصیبات کے حوالے سے معلومات شامل ہوں ، پرلاگو ہو سکتا ہے لیکن اسے عام شہریوں پر لاگو کرنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں وہ سمجھ بوجھ رکھنے والے حلقے خود اخذ کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''کارروائی کی تفصیلات اگر بتائی جائیں تو وہ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں اس لیے بتانے پر سخت پابندی ہے۔ ہاں یہ بات میں ضرور بتانا چاہوں گی کہ فیصلے کسی بھی قانون کے نہیں بلکہ مرضی کے مطابق کیے گئے اور  وقت کے ساتھ یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔ ان ٹرائلز کے غیرآئنی ہونے کے حوالے سے تو پہلے ہی بحث جاری ہے یہ غیر قانونی بھی ہیں کیونکہ ان فیصلوں میں شہادتوں کو خاطر میں ہی نہیں لایا گیا۔‘‘

پاکستان: ایک ماہ میں تقریباﹰ 30 افراد کو سزائے موت

واضح رہے کہ ڈی ڈبلیو نے ملٹری کورٹس کی کارروائی اور ملزمان کے ساتھ سلوک سے متعلق بہت سے وکلا اور ورثا سے بات کی لیکن زیادہ تر نے یہ کہ کر معذرت کر لی کہ ملٹری ٹرائلز پر بات کرنے سے ان کے لیے مشکلات ہوں گی لہٰذا وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ صرف چند ہی وکلا اور ملزمان کے ورثا میں سے حسان کے والد حفیظ اللہ نیازی نے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور وہ بھی اس شرط پر کہ وہ پوری کارروائی بیان نہیں کریں گے۔ اس کے علاہ ایک اور الزام دہندہ کے بھائی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرمعلومات فراہم کیں۔

سول ۔ ملٹری تعلقات میں توازن ضروری ہے، عمران خان

فوجی عدالتوں نے نو مئی کے احتجاج میں ملوث پچیس ملزمان کو سزائیں سنا دی‍ں

اگرگواہیاں موجود نہیں تو سزا کیسے دی گئی؟

ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ایک شخص کے بھائی نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بھائی سے اقبالی بیان لے کر اسے چھ سال کی سز سنائی گئی۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے بھائی کے خلاف مبہم وڈیوز جس میں وہ کسی توڑ پھوڑ میں ملوث نہیں تھا کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جا سکتی تھی  لہٰذا  اس سے تشدد کے زریعے اقبالی بیان لیا گیا جس پر اسے سزا دی گئی۔ یہ بات بھی اس نے ملاقات کے دوران کوڈ ورڈز میں بتائی کیونکہ ملاقات کے وقت کیمروں کے علاوہ سکیورٹی اہلکار سر پر کھڑے رہتے تھے اور کوئی بھی تفصیلات بتانے سے فوری طور پر روک دیتے تھے۔ تشدد کے باوجود میرا بھائی اقبالی بیان نہ دیتا لیکن جب ناخن کھینچنے کی دھمکی دی گئی تو اس نے تکلیف سے بچنے کے لیے یہ بہتر جانا کہ جو بھی جرم وہ کہتے ہیں اسے تسلیم کر لیا جائے۔‘‘

اسلام آباد میں پولیس ہیڈکواٹر کے باہر کا منظر
2023 ء سے پی ٹی آئی کے رہنما جیل میں ہیں اور ان کے حامیوں کو گزفتار کر کے ان پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جا رہا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

سزایافتہ الزام دہندہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا، ''میرا بھائی پڑھا لکھا انسان ہے۔ اس نے قید کے دوران اپنے امتحانات دینے کی بھی درخواست کی وہ بھی رد کر دی گئی۔ مظاہرین تو مظاہرین ہیں جب گیٹ کھلے ملے تو کور کمانڈر ہاؤس یا جناح  ہاؤس جو بھی ہے، کے اندر چلے گئے، بس اتنا کرنے سے وہ دہشت گرد تو نہیں بن گئے لیکن ان کے ساتھ سلوک اس سے بھی برا کیا گیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا جب میں نے تشدد کے بارے بتاتے ہوئے ایک دن اپنے بھائی کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو دیکھے۔‘‘

فوجی عدالتوں کے خلاف گزشتہ فیصلے کی معطلی تنقید کی زد میں

الزام دہندگان کے وکلاہ نے بھی اس بات کی تائید کی کہ ملٹری کورٹس نے اقبالی بیانات کے زریعے سزائیں سنائیں۔ ملزمان کا کیس لڑنے والے ایک اور وکیل مراد علی خان مروت کا کہنا تھا، ''زیادہ تر لوگوں سے زبردستی اور تشدد کے زور پر اقبالی بیان لیے گئے اور اس پر سزائیں دی گئی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گواہی موجود ہو تو اقبالی بیان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لہٰذا  ''قانون کی رکھوالی عدالتیں دیکھ لیں کہ ملٹری کورٹس کو سزائیں دینے کا اختیاردینے سے کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔‘‘

کیا ملزمان کے لیے  وکلا تک رسائی آسانی سے ممکن تھی؟

الزام دہندہ کے بھائی کا کہنا تھا کہ وکلا میں بھی ایک خوف پایا جاتا تھا۔ کوئی ہمارا کیس لڑنے کو تیار نہ تھا ۔ حسان نیازی جو خود ایک وکیل ہیں اور ملٹری ٹرائل کو بھی بھگت رہے تھے انہوں نے مدد کی جس کی وجہ سے ہمیں وکیل میسر ہوا۔ وکلا کا بھی یہ بتانا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو وکیل تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ ملٹری کورٹس ایک وکیل کو تین سے زیادہ کیسز لینے سے روک دیتی تھی اور یہ کیس لڑنے والے بہت سے وکیل موجود نہیں تھے اس لیے زیادہ  تر لوگوں کو ملٹری کی طرف سے فراہم کردہ وکیل پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

پولیس جگہ جگہ شہریوں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے
آئے دن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف پولیس کی کارروائی تصویر: DW

خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے ''ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو ایک وکیل کو تین سے زیادہ  لوگوں کا کیس لڑنے سے روکے لیکن وہاں ان کا اپنا ہی قانون تھا۔ ہر بات کے جواب میں ایک ہی جواب تھا کہ ہمارا یہی قانون ہے۔‘‘

پاکستان: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پر سینیٹرز کا احتجاج

سزایافتہ لوگوں کے لیے کوئی اُمید بھی ہے؟

خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ ابھی تک کسی کو تفصیلی فیصلہ ہی فراہم نہیں کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق وہ فراہم کرنا ضروری ہے تا کہ پتہ چلے کس کو کس جرم میں سزا دی گئی ہے۔ سب لوگوں سے رحم کی درخواستوں پر زبردستی سائن کروا لیے گئے ہیں اور وہ بھی ایک طرح سے انہیں مجرم ثابت کرنے ہی کی ایک کوشش ہے کہ رحم کی درخواست تو وہی کرتا ہے جو جرم وار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا ''صرف ایک ہی امید ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بنچ کورٹ کے پرانے فیصلے کو برقرار رکھے گا جس کے تحت ملٹری کورٹس سیولین کا ٹرائل نہیں کر سکتیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت اس بات سے مشروط ہے کہ سپریم کورٹ ملٹری کورٹس کے احتیارات کے حوالے سے انٹرا کورٹ ریویو پٹیشن پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔ پرانا فیصلہ برقرار رکھنے کی صورت میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کالعدم ہو سکتے ہیں۔‘‘