1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوجی عدالت نے مزید ساٹھ شہریوں کو سزائیں سنا دیں

26 دسمبر 2024

پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے گزشہ برس نو مئی کے حملوں کے سلسلے میں مزید ساٹھ شہریوں کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنا دی ہیں۔ ان سویلین ملزمان کو دو سال سے لے کر دس سال تک قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4oakL
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، دائیں، اور سابق وزیر اعظم عمران خان
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، دائیں، اور سابق وزیر اعظم عمران خانتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات 26 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان سویلین ملزمان پر یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ وہ نو مئی 2023ء کے روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے فوراﹰ بعد شروع ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں ملک کے مختلف حصوں میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے۔

نو مئی اور فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ آئینی بینچ کی مشروط ہاں

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ جن درجنوں ملزمان کو آج سزائیں سنائی گئیں، ان میں عمران خان کا ایک رشتہ دار اور دو ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہیں۔

ان تقریباﹰ سبھی ملزمان کا تعلق عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے۔

سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان
سابق وزیر اعظم عمران خان جو گزشتہ برس اپنی گرفتاری کے بعد سے مسلسل جیل میں ہیںتصویر: Imran Khan/Twitter/REUTERS

موجودہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کی مجموعی تعداد

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں کسی فوجی عدالت نے پچھلے سال نو مئی کے واقعات کے سلسلے میں سویلین ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھی ایسے ہی الزامات کے سلسلے میں 25 دیگر سویلین ملزمان کو بھی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

اس طرح ملکی فوجی تنصیبات یا عسکری اہمیت کے حامل مقامات پر حملوں کے سلسلے میں فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے ملزمان کی مجموعی تعداد اب 85 ہو گئی ہے۔

پاکستان کی ان فوجی عدالتوں پر ملک کے اندر سے اور بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔

سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید پر فرد جرم عائد

اس سال اکیس ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی کی ایک ریلی میں شریک ایک کارکن عمران خان کی تصویر والا ایک پوسٹر پکڑے ہوئے
اس سال اکیس ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی کی ایک ریلی میں شریک ایک کارکن عمران خان کی تصویر والا ایک پوسٹر پکڑے ہوئےتصویر: Salahuddin/REUTERS

گزشتہ برس نو مئی کو ہوا کیا تھا؟

گزشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سیاسی کارکنوں کے عوامی احتجاج کے دوران پاکستانی فوج کی تنصیبات پر کئی مقامات پر جو حملے کیے گئے تھے، وہ پاکستان کی بہت طاقت ور سمجھی جانے والی فوج کے خلاف ایسا احتجاج تھا، جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

آج سنائی گئی سزاؤں کے بارے میں آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا، ''قوم، حکومت اور مسلح افواج اپنے اس عزم پر پوری طرح قائم ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ریاست کی ناقابل تردید بالادستی ہر حال میں قائم رہے۔‘‘

نو مئی: فوج کے غصے اور خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سنائی جانی والے سزاؤں کے بعد اب عمران خان کے سیاسی حامیوں میں یہ تشویش زیادہ ہو گئی ہے کہ پاکستانی فوج ان کے رہنما عمران خان کے خلاف مقدمات میں اور بھی زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

نو مئی دو ہزار تیئیس: پی ٹی آئی کے کارکنوں کے احتجاج کے دوران کراچی میں سندھ کی صوبائی پولیس کی ایک جلتی ہوئی گاڑی
نو مئی دو ہزار تیئیس: پی ٹی آئی کے کارکنوں کے احتجاج کے دوران کراچی میں سندھ کی صوبائی پولیس کی ایک جلتی ہوئی گاڑیتصویر: Ahmed Khan/AFP

عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد سے اپنے خلاف درجنوں مقدمات کا سامنا ہے، جن میں ایسے مقدے بھی شامل ہیں کہ انہوں نے ملکی مسلح افواج کے خلاف حملوں کے لیے اشتعال انگیزی کی تھی۔

فوجی عدالتوں کی کارروائی پر بین الاقوامی تشویش

پاکستان میں عام شہریوں کے طور پر سیاسی کارکنوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات پر بین الاقوامی سطح پر بھی کافی زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔

امریکہ کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اسے ان سزاؤں پر ''گہری تشویش‘‘ ہے جبکہ برطانوی دفتر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ سویلین ملزمان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے عمل میں ''شفافیت کا فقدان‘‘ ہے اور ''غیر جانب دارانہ جانچ پڑتال کی عدم موجودگی میں ایسے مقدمات کی درست اور منصفانہ کارروائی متاثر ہوئی ہے۔‘‘

اس کے علاوہیورپی یونین نے بھی ان سزاؤں پر تنقید کی ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ سزائیں ''پاکستان کی ان ذمے داریوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں، جو اس پر شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنوینشن کے تحت عائد ہوتی ہیں۔‘‘

اسی سال چھبیس نومبر کو اسلام آباد کے ریڈ زون کا ایک منظر، پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج اور پولیس کی طرف سے فائر کی گئی آنسو گیس
اسی سال چھبیس نومبر کو اسلام آباد کے ریڈ زون کا ایک منظر، پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج اور پولیس کی طرف سے فائر کی گئی آنسو گیستصویر: Aamir Qureshi/AFP

پاکستانی حکومت کا موقف

پاکستان میں اسی تناظر میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بدھ 25 دسمبر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ''ان عدالتوں میں ملزمان کے خلاف منصفانہ قانونی کارورائی کے حق کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ ان کو وکلاء اور اپنے اہل خانہ تک رسائی حاصل ہے اور وہ عدالتی فیصلوں کے خلاف دو مرتبہ اپیل بھی کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک اپیل فوجی عدالت میں کی جا سکتی ہے اور دوسری ایک سویلین عدالت میں جو متعلقہ ہائی کورٹ ہو گی۔‘‘

سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟

عمران خان کے حامی کارکن اپنے خلاف قانون شکنی کے الزامات کی نفی کرتے ہیں جبکہ خود عمران خان کا بھی دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی محرکات کے باعث دائر کیے گئے۔

دوسری طرف پاکستانی حکومت اور ملکی فوج دونوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عمران خان یا ان کے حامیوں کے خلاف کوئی غیر منصفانہ سلوک یا کارروائی نہیں کی گئی۔

م م/ ا ب ا (روئٹرز، آئی ایس پی آر)

حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا ختم