ٹلرسن اچانک دورے پر افغانستان میں، منگل کو پاکستان پہنچیں گے
23 اکتوبر 2017کابل میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے بھی بتایا گیا کہ وزیر خارجہ بگرام ایئر فیلڈ پر خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔ کابل کے نواح میں واقع بگرام ایئر فیلڈ پر اُن کے ہمراہ میڈیا کا ایک مختصر وفد بھی پہنچا۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کو مخفی اس لیے بھی رکھا گیا کیونکہ وزیر دفاع جیمز میٹس کی آمد پر طالبان کی جانب سے کابل ایئر پورٹ پر ایک راکٹ داغا گیا تھا۔
عراق سے ہر غیر ملکی جنگجو واپس جائے، امریکی وزیر خارجہ
امريکی وزير خارجہ کا دورہ پاکستان اور بھارت، کسے کيا ملے گا؟
’سخت پیغام‘ لے کر دو امریکی وزیر اسی ماہ پاکستان جائیں گے
استعفیٰ نہیں دے رہا، امریکی وزیر خارجہ
بگرام کے امریکی فوجی مرکز میں ہی انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے علاوہ دوسرے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں۔ وہ تقریباً تین گھنٹے تک افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف رہے۔ ان ملاقاتوں میں توجہ صدر ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیائی پالیسی پر مرکوز رہی۔
ٹِلرسن نے کابل حکومت کے ساتھ ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں افغانستان میں استحکام پیدا کرنے کے امریکی عزم کا اعادہ بھی کیا۔ ان ملاقاتوں کے بعد انہوں نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
بگرام ایئر فیلڈ پر مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ وہ کل منگل چوبیس اکتوبر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں اور وہاں بھی وہ ٹرمپ انتظامیہ کے موقف کا بھرپور انداز میں اظہار کریں گے۔ ٹِلرسن نے کہا کہ پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ طالبان اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کو حاصل حمایت کو کنٹرول کرتے ہوئے تادیبی اقدامات کرے۔
پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ پاکستان کا دورہ مکمل کرتے ہوئے بھارت جائیں گے۔ ٹِلرسن کے مطابق وہ بھارت پہنچ کر نئی دہلی حکومت سے درخواست کریں گے کہ افغانستان کے لیے اقتصادی اور ترقیاتی امداد کو مزید وسعت دی جائے۔
اس پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عسکری تنظیموں کے خلاف کیا اقدامات کرتا ہے اور افغانستان میں مصالحتی عمل کو تقویت دینے والے مواقع کیسے پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ نئی پالیسی ایک مستحکم پاکستان سے بھی نتھی کی گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے ٹھکانوں کو ختم کرے اور بصورت دیگر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔