عراق سے ہر غیر ملکی جنگجو واپس جائے، امریکی وزیر خارجہ
23 اکتوبر 2017ریکس ٹِلرسن نے سعودی عرب اور قطر کے دورے کے دوران اپنی توجہ ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی پر مرکوز رکھی، جس کے تحت ایران کو بتدریج تنہا کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی سرگرمیوں کو محدود کر دینے کو اہمیت دی گئی ہے۔ اتوار بائیس اکتوبر کو انہوں نے ریاض حکومت اور قطر سے کہا کہ وہ اپنے آپس کے سفارتی تنازعے کے حل کی خاطر عملی فیصلے کریں۔
عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرمجوشی، وجہ کیا ہے؟
عراق اور سعودی عرب میں قربت سے ایران پر کیا اثر پڑے گا؟
سعودی عرب میں لبرل اصلاحات، پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
سعودی شاہ سلمان روس میں کتنے ارب ڈالر کے معاہدے کریں گے؟
سعودی عرب میں قیام کے دوران ٹِلرسن نے ایران کے مبینہ خطرناک رجحانات کی مذمت کرتے ہوئے یورپی ممالک اور دیگر اقوام سے کہا کہ وہ ایرانی اشتعال انگیزیوں کو روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کا حصہ بنیں۔ اس موقع پر امریکی وزیر نے ایرانی اور ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا گروپوں کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایسے تمام غیرملکی جنگجوؤں کو عراق چھوڑ کر واپس اپنے اپنے ممالک جانا ہو گا۔
سعودی دارالحکومت ریاض میں امریکی وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور عراق کے مابین تعاون کی کونسل کے اولین سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں شاہ سلمان اور عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی بھی شریک ہوئے۔ اس کونسل کے قیام سے امریکا کو یقین ہے کہ عراق کو ایرانی اثر و رسوخ سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے سعودی فرمانروا اور عراقی وزیر اعظم پر واضح کیا کہ یہ اقتصادی کونسل مستقبل میں عراق کی تعمیر نو میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ سعودی عراقی تعاون کونسل کے اجلاس سے قبل رواں برس اگست میں ریاض اور بغداد نے دونوں ممالک کے درمیان فضائی رابطوں کی بحالی اور سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ ریاض منعقدہ اجلاس میں ٹِلرسن نے اس پیش رفت کا بھی خیرمقدم کیا اور کہا کہ ایسے اقدامات سے تعلقات مزید بہتر اور مثبت بنیادوں پر استوار کرنے کی راہیں کھلیں گی۔
بعد ازاں سعودی اور امریکی وزرائے خارجہ نے ریاض میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں علاقائی امور اور تنازعات پر اپنی اپنی پالیسیوں کے تناظر میں صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
سعودی عرب اور قطر کے دورے مکمل کرنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان اور بھارت کے اپنے اولین دوروں پر روانہ ہوں گے۔ پاکستان میں وہ اعلیٰ حکومتی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی حکمت عملی میں پاکستانی کردار اور اقتصادی شعبے میں وسعت پیدا کرنے کے امکانات پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔