نو منتخب روسی وزیر اعظم تنقید کی زد میں
9 مئی 2012روسی پارلیمان نے گزشتہ روز یعنی 8 مئی کو سابق صدر دیمیتری میدویدیف کو وزیر اعظم کی حیثیت سے منتخب کیا۔ 299 نشستوں میں سے 144 حاصل کرنے والے میدویدیف اگرچہ واضح اکثریت سے مننتخب ہوئے تاہم چند اراکین پارلیمان کے مشکل سوالات نے انہیں برہم کر دیا۔ کمیونسٹوں اور بائیں بازو کے چند دیگر سیاستدانوں نے میدویدیف سے سوال کیا کہ انہوں نے چار سال کی صدارتی مدت کے دوران روسی معیشت میں اصلاحات اور اس کی تجدید کے حوالے سے کیا کارنامے انجام دیے؟
میدویدیف نے اسٹیٹ ڈوما سے اپنے خطاب کے دوران کہا: ’اس ضمن میں کاموں کی انجام دہی کے لیے معاشرے کو متحد ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ریاست عوام سے جدا نہیں ہے اس لیے یہ محض ریاست کا کام نہیں کہ عوام کی خدمت کرے، اُن کے لیے ایک باوقار زندگی اور شہریوں کی امکانی صلاحیتوں کی تکمیل اور ترقی کو ممکن بنائے۔‘
پارلیمان میں بحیثیت وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دیمیتری میدویدیف نے تمام اراکین پارلمیان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ڈوما میں شامل تمام پارٹیوں کے ترجمانوں کے رائے مشورے پر کان دھریں گے اور اُن سے اور ملکی صدر سے جو وعدے انہوں نے کیے ہیں انہیں پورا کریں گے۔
میدویدیف نے مزید کہا کہ ’پہلے میں نے سوچا کہ خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دوں۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ یہ انسانی وقار کے شایان شان نہیں ہے۔ میں صرف ایک بات کہوں گا، روسی فیڈریشن کے وزیر اعظم کی حیثیت سے میں تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مکالمت کے لیے تیار رہوں گا۔ میں اس امر کا پوری طرح قائل ہوں کہ جب ہم مل جل کر کام کریں گے تب ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے‘۔
دریں اثناء کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ Gennadij Sjuganow نے میدویدیف پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا، ’روس میں تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے سے زیادہ فائدہ مند شراب نوشی، چوری اور قیاس آرائیاں کرنا ہو گیا ہے۔‘
اس ضمن میں ولادی میر پوٹن کمیونسٹوں کو ملک کی زبوں حال اقتصادی صورتحال کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں، کیونکہ 1991 تک ان کی حکومت رہی تھی۔ روسی معیشت بھاری صنعت اور معمولی معیار کی اشیائے صرف پر منحصر ہے۔
J.Miroslaw/km/hk