ہم ساتھ افغانستان گئے تھے اور ساتھ ہی نکلیں گے، میرکل
5 مئی 2012نیٹو سربراہی اجلاس 20 اور 21 مئی کو منعقد ہو گا۔ چانسلر میرکل اور راسموسن کے مابین مشرقی یورپ میں میزائل شکن نظام پر روسی تنقید اور افغانستان سے افواج کے انخلاء کے معاملے پر فرانسیسی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے کامیاب امیدوار فرانسوا اولاند کے مؤقف جیسے موضوعات پر بات ہوئی۔ کافی عرصے پہلے ہی یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ افغانستان سے آئی سیف دستے 2014ء تک مرحلہ وار اور ہم آہنگی کے ساتھ نکل جائیں گے لیکن اس تناظر میں فرانسیسی مؤقف میں کچھ تبدیلی دکھائی دے رہی ہیں۔
سوشلسٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار فرانسوا اولاند نےکہا ہے کہ صدر بننے کی صورت میں وہ ملکی دستوں کو اسی سال افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔ تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بقول جرمنی شکاگو کے سربراہی اجلاس میں افغانستان سے فوجوں کے انخلاء کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کی زبردست انداز میں وکالت کرے گا۔’’ ہم لزبن میں طے کیے جانے والے معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ ہم ایک ساتھ وہاں گئے تھے اور ایک ہی وقت پر وہاں سے باہر نکلیں گے۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ نیٹو اجلاس سے قبل افغان صدر حامد کرزئی ایک مرتبہ برلن کا دورہ کریں گے۔ اس دوران 2014ء کے بعد افغانستان کے ساتھ تعاون کی صورتحال پر بات کی جائے گی۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے فرانس میں سوشلسٹ امیدوار اولاند کے مؤقف کے حوالے سے کہا کہ وہ فرانس کے صدارتی انتخابات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے لیکن ان کے خیال میں نیٹو اسی منصوبے پر عمل کرے گا جو پہلے سے طے کیا گیا یعنی ’’ہم اکٹھے وہاں گئے تھے اور اکھٹے ہی افغانستان چھوڑیں گے۔‘‘ میزائل شکن نظام کی تنصیب کے موضوع پر راسموسن نے کہا کہ روس کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میزائل شیلڈ پروگرام اس کے خلاف ہے۔
راسموسن نے اس حوالے سے تمام الزامات کی تردید کی۔ ’’میرے خیال میں اس طرح کے بیانات بلا جواز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے روس کو اس موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ ممکنہ میزائل حملوں کے حوالے سے ہمارے خدشات مشترک ہیں۔ جس طرح نیٹو کے ممالک پر حملہ ہو سکتا ہے اسی طرح روسی شہری بھی میزائل حملے کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
جرمن چانسلر نے بھی میزائل شکن نظام کو ضروری اور دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کریں گی کہ ماسکو حکام کو یہ باور کرایا جائے کہ اس نظام کا تعلق سلامتی سے ہے اور یہ کسی طرح بھی روس کے خلاف نہیں ہے۔ روس ابتداء ہی سےاس منصوبے کی مخالفت کرتا آ رہا ہے۔
Nina Wekhäuse/ai/ng