قندوز ہسپتال پر امریکی حملہ ’ناقابلِ معافی‘ ہے، اقوام متحدہ
4 اکتوبر 2015بین الاقوامی امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے اس حملے کے بعد شہر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس امدادی تنظیم کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال پر امریکی فضائی حملے کا واقعہ ہفتہ تین اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق رات کو دو بج کر دَس منٹ پر پیش آیا۔ اس حملے کے بعد ہسپتال کی عمارت شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس فضائی کارروائی کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہو گئے۔
مرنے والے اُنیس افراد میں عملے کے بارہ ارکان کے ساتھ ساتھ سات مریض بھی شامل ہیں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے حالانکہ افغان تنازعے کے تمام فریقوں کو پہلے سے واضح طور پر قطعیت کے ساتھ بتا دیا گیا تھا کہ اس فلاحی ادارے کے مختلف مراکز کہاں کہاں واقع ہیں۔ اس حملے کے دوران اس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ اور ایمرجنسی رومز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ ہسپتال کے آس پاس کی عمارتیں مکمل طور پر محفوظ رہیں۔
جہاں امریکی فوج کے ایک بیان کے مطابق اس ہسپتال کو اس لیے حملے کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کے احاطے سے طالبان باغی براہِ راست امریکی فوج پر فائرنگ کر رہے تھے، وہاں ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے اس طرح کے دعووں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اسی طرح ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے کابل میں افغان وزارتِ دفاع کی طرف سے دیے گئے بیان کو بھی مسترد کر دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان عسکریت پسندوں نے ہسپتال پر حملہ کر دیا تھا اور اس عمارت کو ’انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی طرف سے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ’ہسپتال کی عمارت کے گیٹ ساری رات بند رہے، اس لیے عمارت میں عملے، مریضوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کے علاوہ کوئی شخص موجود نہیں تھا‘۔
عینی شاہدین کے مطابق اس حملے کے بعد بھڑکنے والی آگ میں مریض زندہ جل گئے۔ مرنے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں، جن کا وہاں علاج کیا جا رہا تھا۔ زندہ بچ جانے والے مریضوں اور عملے کو دیگر طبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ حملے کے فوراً بعد ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کا گھبرایا ہوا عملہ ٹیلیفون پر کابل میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے حکام کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کو بھی اس حملے کی اطلاع دیتا رہا لیکن تقریباً ایک گھنٹے تک ہسپتال کی عمارت پر بم گرائے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔
امریکی صدر اوباما نے مرنے والوں کے لواحقین سے افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حملے کے حوالے سے مکمل تحقیقات کروائی جائیں گی۔
اگرچہ کابل میں حکومتی ذرائع قندوز کو طالبان کے قبضے سے واپس چھین لینے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن اس شمالی افغان شہر سے ملنے والی خبروں کے مطابلق طالبان ابھی تک افغان دستوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔
اتوار کو افغان وزارتِ دفاع کی جانب سے شہریوں کو طالبان پر فتح کے لیے مبارک باد دی گئی اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے چھ ہزار پرچیاں گرائی گئیں،جن میں شہریوں کو فوج کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ غالباً شہر پر قبضے کے لیے لڑائی بدستور جاری ہے۔ ایک مقامی باشندے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شہر کی سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں اور شہری خوف کے مارے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔ اس شہری کا کہنا تھا کہ شہر بھر سے فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں اور یہ کہ چند ایک لاشیں گلنا سڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ شہر میں اشیائے خورد و نوش کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔