1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطين کے خلاف معاشی پابندياں، صائب عريقات کی مذمت

عاصم سلیم11 اپریل 2014

اسرائيل کی جانب سے فلسطينی اتھارٹی کے خلاف اقتصادی پابنديوں کے اعلان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فلسطينی چيف مذاکرات کار صائب عريقات نے اس اسرائيلی اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bg5U
فلسطين کی مذاکراتی کميٹی کے سربراہ صائب عريقاتتصویر: picture-alliance/dpa

رملہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فلسطين کی مذاکراتی کميٹی کے سربراہ صائب عريقات نے جمعرات دس اپريل کو کہا کہ فلسطينيوں کے نام پر جمع کيے جانے والے ٹيکسوں کو منجمد کرنے کا اسرائيلی اقدام ’چوری‘ کے مترادف ہے۔ اُنہوں نے اسرائيل کی جانب سے اعلان کردہ معاشی پابنديوں کو بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی قرار بھی ديا ہے۔

Abbas Friedensgespräche Nahost UN
فلسطینی صدر محمود عباستصویر: Abbas Momani/AFP/Getty Images

قبل ازيں فلسطينی اعلی قيادت کی جانب سے فلسطین کو آزاد رياست کے طور پر تسليم کرائے جانے سے متعلق حاليہ کوششوں کے تناظر ميں اسرائيل نے فلسطينی اتھارٹی کے خلاف پابنديوں کا اعلان کيا تھا۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ايک اسرائيلی اہلکار نے بتايا کہ فلسطينی اتھارٹی کو باقاعدگی سے ادا کیے جانے والی ٹيکسوں کی رقم ميں سے ایک حصہ کاٹ لیا جائے گا اور اسرائيل ميں فلسطينی حکومت کے مالی ذخائر کی بھی حد مقرر کر دی جائے گی۔ اسرائيل نے يہ بھی کہا ہے کہ وہ غزہ پٹی کی سرحد کے قريب جاری گيس تلاش کرنے کے ايک منصوبے سے اپنی شراکت معطل کر رہا ہے۔

دوسری جانب فلسطينی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اسرائيلی انتظاميہ پر الزام عائد کرتے ہيں کہ فلسطينی قيديوں کی چوتھی کھيپ کی رہائی روک کر اسرائيل نے امن عمل ميں طے شدہ نکات کی خلاف ورزی اور وعدہ خلافی کی ہے۔

امريکا کی ثالثی کے نتيجے ميں گزشتہ برس جولائی ميں بحال ہونے والے مشرق وسطی امن مذاکرات اِن دنوں شديد تنازعات کا شکار ہيں۔ مذاکرات کے آغاز پر طے شدہ شرائط کے تحت اسرائيل کو گزشتہ ماہ کے اختتام پر فلسطينی قيديوں کی چوتھی کھيپ کو رہا کرنا تھا تاہم اسرائيل نے فلسطين کی جانب سے مذاکرات ميں توسيع نہ کرنے کے سبب قيديوں کورہا نہ کيا۔ اِس کے رد عمل ميں فلسطين نے بين الاقوامی طور پر تسليم کيے جانے کے اپنے عزائم اور اقدامات بحال کيے اور محمود عباس نے پندرہ بين الاقوامی کنونشنوں پر دستخط کيے۔ اسرائيل فلسطينی قيادت کے اِس اقدام کو مذاکرات کے آغاز پر طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی قرار ديتا ہے۔

امن مذاکرات ميں کسی معاہدے تک پہنچنے کے ليے رواں ماہ انتيس تاريخ تک کی مدت مقرر ہے تاہم اب امريکا کی کوشش ہے کہ مذاکراتی عمل ميں کچھ وقت کی توسيع کر دی جائے تاکہ فريقين کو تحفظات دور کرنے کا موقع مل سکے۔ جمعرات کے روز امريکا کی جانب سے عنديہ ديا گيا ہے کہ اندرونی سطح پر بات چيت جاری ہے اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ امن عمل ناکام نہ ہو۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان جينيفر ساکی کے بقول فريقين کے مابين فاصلے کچھ کم ہوئے ہيں تاہم فی الحال کچھ کہا نہيں جا سکتا۔

Ruanda Genozid Gedenkfeier 07.04.2014 Ban Ki-Moon
اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مونتصویر: Simon Maina/AFP/Getty Images

دريں اثناء اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے تصديق کر دی ہے کہ فلسطين کی جانب سے تيرہ بين الاقوامی کنونشنوں کی رکنيت حاصل کرنے سے متعلق درخواستيں درست ہيں اور اُنہيں تسليم کيا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے جمعرات کے روز بتايا کہ سيکرٹری جنرل نے تمام 193 رکن رياستوں کو مطلع کر ديا ہے کہ فلسطين کی درخواستيں منظور کر لی گئی ہیں۔ فلسطين کی جانب سے جمع کرائی جانے والی بقيہ دو درخواستوں ميں سے ايک ہالينڈ جبکہ دوسری جنيوا ميں ہے۔

اقوام متحدہ ميں فلسطين کے سفير رياض منصور نے اِسی ہفتے منگل کے روز کہا تھا کہ فلسطين پندرہ ميں سے تيرہ کنونشنوں ميں دو مئی سے بحيثيت رياست رکن بن جائے گا۔ اُن کے بقول فلسطين اقوام متحدہ کی ديگر ايجنسيوں، کنونشنوں اور معاہدوں کا حصہ بننے کے ليے تيار ہے، جس کا دارومدار اسرائيلی انتظاميہ کے اقدامات پر ہوگا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید