پیچیدہ مشرق وسطیٰ امن عمل ایک نئے موڑ پر
2 اپریل 2014فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے بین الاقوامی اداروں کی رکنیت کے لیے درخواست دینے کا عمل دراصل فلسطین کو عالمی سطح پر بطور ریاست تسلیم کرانے کی ایک کوشش ہے۔ اگرچہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ گزشتہ برس جولائی میں بحال ہونے والے امن مذاکرات کے اس تازہ دور کے دوران وہ ایسی کوشش نہیں کریں گے تاہم نو مہینوں پر محیط اس دور کے اختتام سے قبل ہی محمود عباس نے اپنی اس مہم کو بحال کر دیا ہے۔
محمود عباس کے اس اعلان کے کچھ دیر بعد ہی امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ کے دن مشرق وسطیٰ کا اپنا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ برسلز میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے کیری نے البتہ کہا ہے کہ ایسا کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ مشکلات کا شکار اسرائیلی فلسطینی مذاکراتی عمل ناکام ہو گیا ہے۔ کیری نے کہا، ’’ہم اب بھی اطراف کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان فریقین پر زور دیتے ہیں کہ جب تک یہ عمل جاری ہے، وہ صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔‘‘
اس تازہ پیشرفت پر ابھی تک اسرائیل کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن محمود عباس کی طرف بین الاقوامی ادروں کی رکنیت کے لیے درخواست دینے کی اپنی مہم کی بحالی سے اسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ غالباﹰ ایسے اسرائیلی دعوے غلط ہو سکتے ہیں کہ امن مذاکرات انتیس اپریل کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی جاری رہیں گے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ محمود عباس کی طرف سے کیا جانے والا یہ ڈرامائی اعلان امریکا اور اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے کیا گیا ہے یا یہ ان کی حکمت عملی میں کسی بنیادی تبدیلی کا عندیہ ہے۔
منگل کے دن عباس نے ویسٹ بینک میں اپنے صدر دفتر میں منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران پندرہ بین الاقوامی معاہدوں اور کنوینشنز کے لیے فلسطینی رکنیت کی درخواست پر دستخط کیے۔ یہ تقریب سرکاری ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی۔ محمود عباس کے بقول وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ اسرائیل نے وعدوں کے باوجود مارچ کے اختتام تک فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کیا ہے۔
امن عمل کے حق میں ہوں، محمود عباس
فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں اور وہ اسرائیلی فلسطینی مسئلے کے پائیدار حل کے لیے پرعزم ہیں۔ بعدازاں عباس کے ایک قریبی ساتھی نبیل ابو ردینہ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ بڑھائے کہ اسرائیل قیدیوں کو رہا کر دے۔ انہوں نے ایسا اشارہ بھی دیا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطنیوں کی رہائی کے بعد محمود عباس اپنے اس فیصلے کو واپس لے سکتے ہیں۔
ادھر اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ ڈیل کے مطابق فلسطینی قیدیوں کی چوتھی کھیپ کی رہائی سے قبل امریکا میں قید جوناتھن پولارڈ کو آزاد کیا جائے۔ امریکی شہری پولارڈ کو جاسوسی کے الزام میں 1987ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعدازاں معلوم ہوا تھا کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے اس سابقہ نیول انٹیلجنس تجزیہ کار نے خفیہ معلومات اسرائیل کو فراہم کی تھیں۔ اسرائیل نے 1995ء پولارڈ کو شہریت دیتے ہوئے اس کی رہائی کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔
نارتھ کیرولینا میں سزا کاٹ رہے پولارڈ نومبر 2015ء میں پیرول پر رہا کیے جا سکتے ہیں۔ ناقدین کے بقول پولارڈ کی قبل از وقت رہائی کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم زیادہ فلسطینی قیدیوں کو آزاد کر سکتے ہیں، وگرنہ دوسری صورت میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے انہیں داخلی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق صدر باراک اوباما نے پولارڈ کی رہائی کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔