فاٹا میں فوجی آپریشن: ہلاک، گرفتار شدہ جنگجوؤں سے متعلق تفصیلات کی کمی
12 دسمبر 2014سال2002 سے اس جنگ میں شدت آ گئی۔ پاکستانی فوج نے مختلف قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کیے جبکہ آج بھی شمالی وزیر ستان اور خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہیں۔ مارے جانے اور زندہ گرفتار کر لیے جانے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں عسکریت پسندوں نے ہتھیار بھی ڈالے ہیں۔
عسکری ذرائع کے مطابق جون کے وسط میں شروع کیے جانے والے آپرشن میں ایک ہزار سے زیادہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ اس دوران سینکڑوں شدت پسندوں نے ہتھیار بھی ڈالے۔ ان اعداد و شمار کی رو سے ملک بھر میں سکیورٹی اداروں نے2274 آپریشن کیے۔ آئے روز ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی آپریشن بھی کیے جاتے ہیں تاہم عوام کے ذہنوں میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرنے والے عسکریت پسندوں سے متعلق تفصیلات کو کب منظر عام پر لایا جائے گا۔ ان علاقوں تک میڈیا کو رسائی حاصل نہیں اور میڈیا رپورٹوں کا انحصار بھی زیادہ تر پولیٹیکل انتظامیہ، فاٹا سیکریٹریٹ یا پھر مقامی باشندوں کی فراہم کردہ معلومات پر ہوتا ہے۔
مارے جانے کے علاوہ دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث عناصر کی ایک بڑی تعداد جبری طور لاپتہ بھی ہو جاتی ہے۔ اسی دوران پشاور ہائی کورٹ کی کوششوں سے ایسے 936 افراد کو ان کے لیے بنائے گئے انٹرنمٹنٹ سینٹرز میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے مراکز کی تعداد نو جبکہ فاٹا میں 34 ہے۔ ان مراکز میں لائے جانے والے افراد کو تین کیٹیگریز یعنی وائٹ، گرے اور بلیک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان مراکز میں زیر حراست نوے فیصد افراد کو ”بلیک“ کیٹٰیگری میں رکھا گیا ہے۔ عدالت کی جانب سے ان کے ٹرائل شروع کیے جانے کے احکامات پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد اسرار اتل سے بات چیت کی، تو انہوں نے کہا، ”ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے اداروں کی آپس میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے۔ کمیونیکیشن گیپ ہے۔ اسے ختم کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور ادارے متحد نہ ہوئے، تو لوگ اسی طرح مریں گے۔ ان کی لاشوں کا بھی پتہ نہیں چلے گا اور تاریخ اسی طرح رقم ہوتی رہے گی۔‘‘
جہاں فوجی آپریشنوں میں بڑے پیمانے پر عسکریت پسندوں کو مارا گیا، وہاں ایک بڑی تعداد میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں بھی لیا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثریت کو ثبو ت نہ ہونے کی وجہ کوئی سزا نہ سنائی جا سکی جبکہ ایسے ملزمان کی ایک بڑی تعداد اس وقت بھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہے۔ عدالتوں سے رہائی کے حوالے سے مختلف ماہرین اسے پولیس کی ناقص تفتیش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
صوبائی پولیس کے انسپکٹر جنرل ناصر درانی کہتے ہیں، ’’چھ ماہ کے اندر دہشت گردی میں ملوث اٹھارہ کیسز میں دس سے بائیس سال کی سزائیں سنائی گئیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک کسی ملزم کو سزائے موت نہیں سنائی گئی۔ ’’اگر ہم تھوڑی سی مزید بہتری لائیں، تو دہشت گردی میں ملوث افراد کو عدالتوں سے سزائیں دلوائی جا سکتی ہیں۔‘‘
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق قریب آٹھ ہزار لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے، جو اس وقت مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ دوسری طرف سن 2008ء سے پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد روکا جا چکا ہے۔ اسی لیے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 'ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز ہلاک شدگان کی لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی بظاہر جاری‘ رہے گا۔