غزہ کی جنگ: امریکا سے تعلقات پر اثرات اسرائیل کا بڑا نقصان
20 اگست 2014قاہرہ میں مصر کی ثالثی میں ہونے والے دیرپا فائر بندی سے متعلق بالواسطہ مذاکرات کل منگل کے روز ناکام ہو گئے تھے۔ اس بات چیت کی ناکامی کے ایک روز بعد آج بدھ کو عسکریت پسند فلسطینیوں کی طرف سے غزہ پٹی کے علاقے سے اسرائیل کی طرف ایک بار پھر درجنوں راکٹ فائر کیے گئے۔ ان راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں نئے سرے سے بہت سے اہداف کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔
انہی میں سے ایک حملہ فلسطینی تنظیم حماس کے عسکری بازو قسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضیف کے گھر پر کیا گیا۔ اس اسرائیلی حملے کا ہدف غزہ سٹی کے علاقے شیخ رضوان میں ایک ایسا چھ منزلہ گھر تھا، جو قسام بریگیڈ کے کمانڈر کی رہائش گاہ تھا اور جو بالکل تباہ ہو گیا۔
غزہ سٹی سے موصولہ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ ایک اسرائیلی جنگی طیارے سے کیے گئے اس راکٹ حملے میں حماس کے عسکری بازو کے سربراہ کی بیوی اور ایک بچہ ہلاک ہو گئے۔ محمد ضیف کا شمار ان سرکردہ عسکریت پسند فلسطینیوں میں ہوتا ہے جو عشروں سے اسرائیل کو مطلوب ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس حملے کے وقت محمد ضیف اپنے گھر پر تھے۔
اسرائیل کا بڑا نقصان
ادھر خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے بارے میں یروشلم سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ اگر اسرائیل یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرے کہ حماس کے ساتھ تازہ ترین جنگ میں اسے اب تک کتنا نقصان ہوا ہے، تو اسے شاید اس نتیجے تک پہنچنا پڑے کہ اس کے سب سے بڑے نقصانات میں وہ امریکی اسرائیلی تعلقات بھی شامل ہیں جن پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔
اسرائیل اور امریکا دونوں ہی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ روایتی طور پر بہت قریبی تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکا میں باراک اوباما اور اسرائیل میں بینجمن نیتن یاہو دونوں ہی 2009ء کے اوائل میں اقتدار میں آئے تھے۔ شروع ہی سے کئی معاملات میں دونوں رہنماؤں کی رائے ایک جیسی نہیں۔ خاص طور پر اس بارے میں تو اوباما اور نیتن یاہو کی آراء ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعہ کیسے حل کیا جانا چاہیے۔ دوسرا بڑا اختلاف رائے فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت کے بارے میں ہے۔
بطور ثالث امریکا کی بجائے مصر کو ترجیح
خبر ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں کی بہت زیادہ ہلاکتوں پر امریکا نے جو تنقید کی تھی، اسرائیل اس پر خوش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی ثالثی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے مصر کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دی۔ یہی نہیں جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فریقین کے مابین فائر بندی کے لیے کوششیں کیں، تو کئی اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں نے جان کیری پر ذاتی حملے بھی شروع کر دیے۔ ان کا ایک الزام یہ بھی تھا کہ کیری حماس کو بہت بڑی پیشکشیں کرنے لگے تھے۔
ایک اسرائیلی کالم نگار شموئل روزنر کے مطابق موجودہ امریکی اسرائیلی اختلافات کی خاصیت وہ بڑی خلیج ہے، جس کی وجہ نیتن یاہو اور اوباما کا دنیا کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف انداز میں دیکھنا ہے۔ شموئل روزنر کے بقول دونوں رہنماؤں کے مابین چھ سالہ شکوک و شبہات کے نشانات بہت گہرے ہیں اور اگلے دو سال کے دوران بھی موجودہ صورت حال میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئے گی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسی لیے غزہ کی جنگ کے اسرائیل کے لیے سب سے بڑے نقصانات میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکی اسرائیلی روابط پر اور بھی منفی اثر پڑا ہے اور دوطرفہ خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔