غزہ میں 300 سے زائد ہلاکتیں: بیس فیصد تعداد کم سن بچوں کی
19 جولائی 2014سسکیاں بھرتا ہوا اسماعیل ابو مسلّم اپنے لرزاں جسم کے ساتھ جمعے کو ایک ہسپتال کی دیوار سے لگا کھڑا اپنے تین بچوں کے جنازوں کی تیاری کا منتظر تھا۔ 11 سالہ احمد، 14 برس کی والع اور 16 سالہ محمد اپنے بستروں میں سو رہے تھے کہ اسرائیلی توپ کا گولہ اُن کے گھر پر برسا اور یہ بچے بستر کے ملبے تلے ابدی نیند سو گئے۔
یہ پہاڑ محض ابو مسلم پر نہیں ٹوٹا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 8 جولائی سے غزہ پٹی کے گنجان آبادی والے علاقوں پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے تین سو سے زائد فلسطینیوں کی بیس فیصد تعداد کم سن بچوں پر مشتمل تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں 1.7 ملین فلسطینی آباد ہیں اور ان میں سے نصف 18 سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام تر کوششیں کر رہی ہے کہ اُس کے حملوں میں کم سے کم شہری ہلاک ہوں اور اس لیے وہ حماس کو نشانہ بنانے کے لیے حملوں سے پہلے ہی شہریوں کو علاقہ خالی کرنے کے لیے کہہ رہی ہے۔ اسرائیل اسلامی تنظیم حماس پر الزام عائد کر رہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شہری آبادی والے علاقوں سے اسرائیل پر راکٹ داغ رہی ہے۔ اُدھر انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے کوئی بھی ایسا محفوظ مقام نہیں ہے، جہاں وہ پناہ لے سکیں۔
صحت کے شعبے سے منسلک فلسطینی اہلکاروں کے حوالے سے ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں سے 71 کی عمریں اٹھارہ سال سے کم تھیں جبکہ 48 کی عمریں 13 سال سے کم تھیں۔ اطلاعات کے مطابق زیادہ تر بچوں کی ہلاکتیں ان کے اپنے گھروں میں ہی ہوئی ہیں۔
گزشتہ جمعے کو غزہ کے جنوبی علاقے رفاہ کے ایک گھر پر اسرائیل توپ کے ایک گولے کا نشانہ ایک پانچ ماہ کا بچہ بنا تھا جبکہ اس سے ایک روز پہلے اپنے گھر کی چھت پر کبوتروں کو دانا ڈالتے ہوئے دو بھائی اور اُن کا ایک رشتے کا بھائی ایسے ہی ایک میزائل حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ عالمی برادری کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ وہ تھا جس میں گزشتہ بُدھ کو غزہ شہر کی بندرگاہ کے نزدیک ساحل سمندر پر 9 سے 11 سال کی عمر کے چار کزنز کھیل رہے تھے کہ اسرائیلی گن بوٹ سے فائر کیا جانے والا میزائل ایک کٹیا پر گرا۔ یہ لڑکے بھاگ کر جان بچانا چاہتے تھے لیکن ایک دوسرے میزائل حملے نے ان چاروں کی جان لے لی۔ اس واقعے کی دلخراش تصاویر میں خون سے لت پت ان بچوں کی لاشیں ساحل کی ریت پر مُنہ کے بل پڑی دیکھی گئیں۔ یہ منظر اتنا افسوسناک تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "اسرائیل کو شہری ہلاکتوں سے باز رہنے کے لیے اس سے بہت زیادہ اقدامات کرنا چاہیں جتنے کہ وہ کر رہا ہے۔"
دریں اثناء جنگ بندی میں ثالثی کی نئی کوشش کے لیے بان کی مون آج ہفتے کو مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں جبکہ گزشتہ روز سلامتی کونسل میں سیاسی امور کے انڈر سیکریٹری جنرل جیفری فیلٹ مین نے ایک بیان میں کہا تھا، ’فائر بندی ناگزیر ہے تاکہ انسانی بنیادوں پر متاثرین کی امدادی کارروائیوں کو کامیاب بنایا جا سکے‘۔
اُدھر آج مصری وزیر خارجہ نے فریقین سے فائر بندی کی پیش قدمی کو تسلیم کرنے کا دوبارہ مطالبہ کیا ہے۔ اُدھر اسرائیل اپنی کارروائی کا دائرہ وسیع کرنے کا اعلان کر چُکا ہے اور اُس نے کہا ہے کہ اُس کا آپریشن مزید دو ہفتوں تک جاری رہے گا اور یہ کہ ابھی بہت سی سرنگوں کو تباہ کرنا باقی ہے۔