1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں تشدد کی تازہ لہر، درجنوں ہلاک

Atif Baloch29 جولائی 2013

پیر کو عراق بھر میں رونما ہونے والی پر تشدد کارروائیوں میں کم ازکم باسٹھ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ زخمیوں کی تشویشناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19GbG
تصویر: Reuters

طبی اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق آج کے ان حملوں میں زیادہ تر شیعہ اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان تازہ بم دھماکوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد جولائی کے مہینے میں وہاں ایسی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ سو تک پہنچ گئی ہے۔

Anschläge in Bagdad Juli 2013
رواں ماہ عراق میں پر تشدد کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد تقریباً آٹھ سو تک پہنچ گئی ہےتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس وہاں لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق عراق میں گزشتہ چار ماہ کے دوران رونما ہونے والی تشدد آمیز کارروائیوں میں ڈھائی ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔

بغداد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پیر کے دن وہاں 9 مختلف مقامات پر کُل گیارہ کار بم حملے کیے گئے۔ ان میں سے سات مقامات ایسے تھے، جہاں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے۔ بغداد کے جنوب میں واقع محمودیہ نامی علاقے میں بھی ایک بم حملے کی اطلاع ہے جبکہ اسی طرح کوت، ساماوہ اور بصرہ میں بھی بم حملے کیے گئے ہیں۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 226 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ خونریز حملہ شیعہ اکثریتی الصدر سٹی میں اس وقت کیا گیا، جب وہاں مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کام کی تلاش میں جمع تھی۔ اس حملے میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے جبکہ سترہ زخمی ہوئے۔ اس دھماکے کی وجہ سے قریب واقع دوکانوں اور دیگر عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

عراق میں تشدد کی اس تازہ لہر سے ایک روز قبل ہی شمالی علاقے خورماتوو میں ہونے والے خود کش حملے میں چودہ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں 9 کرد پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ سن 2008ء کے بعد سے عراق کو کشیدہ ترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سکیورٹی اور سیاسی ناقدین کے بقول عراق میں سیاسی سطح پر اختلافات کے باعث ایسے حملوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

Obama trifft irakischen Ministerpräsidenten Nuri al-Maliki
عراقی وزیر اعظم نوری المالکیتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

یہ امر اہم ہے کہ عراق میں شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت اور سنی اپوزیشن کے مابین اقتدار میں شراکت کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ملک کے سنی طبقے کا الزام ہے کہ ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ناقدین کے بقول عراق میں بڑھتے ہوئے شیعہ سنی اختلافات اور ہمسایہ ملک شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے عراق میں فرقہ ورانہ تنازعہ اور بھی بھڑک سکتا ہے۔

دوسری طرف حکومت عوام کو بنیادی شہری سہولیات فراہم کرنے میں بھی ناکام نظر آ رہی ہے۔ اے ایف پی نے بغداد سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ عوام بجلی، پینے کے صاف پانی اور دیگر متعدد سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں اور بد عنوانی سے تنگ ہیں۔ سیاسی تعطل کے باعث مالکی کی حکومت کئی برسوں سے تقریباً کسی بھی قانون سازی میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔