عالمی سلامتی کونسل کا عراق کی اور زیادہ مدد کا مطالبہ
18 اکتوبر 2014نیو یارک سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سلامتی کونسل نے یہ مطالبہ عراق کی صورت حال سے متعلق اپنے ایک بیان میں کیا، جو کونسل کے رکن تمام 15 ملکوں کی طرف سے جمعے کی رات متفقہ طور پر جاری کیا گیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے نیو یارک سے اپنے رپورٹوں میں لکھا ہے کہ سکیورٹی کونسل نے اپنے اس بیان میں عراق میں ان متعدد حملوں کی مذمت کی ہے جو وہاں خود کش حملہ آوروں، گاڑیوں میں نصب دھماکا خیز مواد اور دیگر ذرائع سے کیے جا رہے ہیں۔ عراق میں ملکی دارالحکومت بغداد اور اس کے قریبی صوبوں میں یہ حملے سنی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔
کونسل نے اپنے بیان میں کہا، ’’عالمی برادری کو بین الاقوامی قانون کے تحت عراقی حکومت اور عراقی سکیورٹی فورسز کی مدد میں اور اضافہ کرنا چاہیے تاکہ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ نامی عسکریت پسند گروپ اور اس سے جڑے ہوئے دیگر مسلح گروہوں کے خلاف جنگ کو کامیاب بنایا جا سکے۔‘‘
اسی دوران امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی عسکری اتحاد میں شامل ملکوں کے جنگی طیاروں نے کل جمعے اور آج ہفتے کی صبح بھی اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف اپنے فضائی حملے جاری رکھے۔ عراقی فورسز بھی بغداد سے مغرب کی طرف دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنی مسلح جنگ میں عراقی دستوں نے کل جمعے کے روز تکریت نامی شہر کے شمال میں ایک بڑی عسکری کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ تکریت کا شہر بغداد سے مغرب اور شمال کی طرف واقع عراق کے ان زیادہ تر سنی عرب شہروں میں سے ایک ہے، جن پر اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے جون میں قبضہ کر لیا تھا۔
ان مسلح کارروائیوں میں عراقی دستوں کو بین الاقوامی عسکری اتحاد کی طرف سے فضائی حملوں کی صورت میں مدد بھی حاصل ہے تاہم اب تک بغداد حکومت کے دستوں کو اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے زیر قبضہ شہروں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق اپنے متفقہ بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یہ بھی کہا کہ اسلامک اسٹیٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سکیورٹی خطرات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے ’ہر طرح کے عسکری ذرائع‘ استعمال کیے جانا چاہییں۔ عالمی سلامتی کونسل اسلام پسند سنی مسلمانوں کی اس عسکریت پسند تنظیم کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکی ہے۔