1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آئی ایس‘: اوباما اپنی پالیسی بدلیں، تبصرہ

Rolf Büllmann / امجد علی16 اکتوبر 2014

امریکا کا کہنا ہے کہ شام میں اس کے فضائی حملوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے سینکڑوں جنگجو مارے گئے ہیں۔ کیا محض فضائی حملوں کے ذریعے اس دہشت گرد تنظیم کو شام اور عراق میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1DWW4
تصویر: Reuters/U.S. Air Force/Senior Airman Matthew Bruch

تبصرہ نگار رولف بِیُول مان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کو اپنی اب تک کی حکمتِ عملی تبدیل کرنا ہو گی اور اُس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

وہ لکھتے ہیں:’’یہ چیز طاقت کی ایک علامت تھی کہ بیس سے زائد ملکوں نے اپنے اعلیٰ ترین فوجی افسر امریکا بھیجے تاکہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے خلاف ایک مشترکہ حکمتِ عملی پر تبادلہٴ خیال کر سکیں۔ امریکی صدر بنفسِ نفیس اس اجلاس میں شریک ہوئے اور اُنہوں نے بحث میں بھی شرکت کی۔ ساتھ ساتھ امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے شام اور ترکی کی سرحد پر لڑائی کی زَد میں آئے ہوئے شہر کوبانی کے قریب آئی ایس کے ٹھکانوں پر بیس سے زائد فضائی حملے بھی کیے۔

اس کے برعکس یہ چیز کمزوری کی ایک علامت ہے کہ آئی ایس کی ابتدائی کامیابیوں اور اُن کی ناقابلِ تصور بربریت کے بارے میں خبریں منظرِ عام پر آنے کے مہینوں بعد بھی آئی ایس کے خلاف تشکیل کیا گیا اتحاد کوئی ٹھوس منصوبہ تیار نہیں کر پایا۔ اُدھر فضائی حملوں کے باوجود آئی ایس کے جنگجو شام اور ترکی کی سرحد پر ہی نہیں بلکہ عراق میں بھی مسلسل اپنی پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اوباما کی حکمتِ عملی کام نہیں کر رہی

ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگر حالات و واقعات کی رفتار تیز ہو اور فیصلہ کن عملی قدم اٹھانے کا معاملہ ہو تو صدر اوباما کا طرزِ سیاست ایسا ہے کہ بات بہت جلد اُن کے بس سے باہر ہو جاتی ہے۔ آئی ایس کے خلاف جنگ برسوں پر محیط ہے۔ اس جنگ کی تیاریاں بین الاقوامی مشاورت سے اور صبر و تحمل کے ساتھ کی جانی چاہییں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عجلت میں کوئی نئی جنگ شروع کر دی جائے یا امریکا اکیلے کوئی بڑا قدم اٹھائے، خاص طور پر کوئی زمینی جنگ بہرحال نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرہ نگار رولف بِیُول مان
تبصرہ نگار رولف بِیُول مانتصویر: BR/Theresa Högner

تاہم ناقدین کے خیال میں درحقیقت ایسا ہو نہیں رہا۔ بار بار زمینی دستے بھیجنے کی باتیں زیادہ سے زیادہ پُر زور انداز میں کی جا رہی ہیں۔ اوباما کی طرف سے قبل از وقت، عجلت میں اور قطعی طور پر یہ کہہ دیا جانا کہ وہ اپنے فوجی اس خطّے میں نہیں بھیجیں گے، آگے چل کر ایک سنگین غلطی بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ جو بھی شخص کوئی جنگ شروع کرتا ہے، اُسے ضرورت پڑنے پر وہ جنگ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بھی لڑنے کے لیے تیار ہونا چاہیے کیونکہ طاقت کا مظاہرہ اسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ ورنہ آدمی شروع ہی میں کہہ سکتا ہے کہ ’یہ میری جنگ نہیں ہے، ہم اس میں نہیں پڑیں گے، تم خود ہی اس سے نمٹو‘۔ محض فضائی حملوں تک محدود رہنے اور انتہائی مؤثر زمینی دستے بھیجنے سے گریز کرنے کی پالیسی ایک درمیانی راستہ ہے، جو تذبذب اور یوں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

امریکا نہیں تو پھر کون کرے؟

اس وقت آئی ایس کے خلاف جنگ میں زمینی دستے سرگرمِ عمل نہیں ہیں کہ جو حالات کا رُخ موڑ سکتے ہیں۔ کسی کے پاس بھی اس قدر مسلح اور اتنے تربیت یافتہ دستے نہیں ہیں، جتنے کہ امریکا کے پاس۔ بہرحال آئی ایس کے خلاف جنگ اب لڑی جانی چاہیے، نہ کہ ہفتوں اور مہینوں بعد۔ ہو سکتا ہے کہ امریکی حکومت کو اپنی مرضی سے کہیں زیادہ جلد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے۔ بالفرض بغداد ایئرپورٹ واقعی خطرے سے دوچار ہوتا ہے، جیسا کہ تازہ حالات کے بعد امکان ہے تو پھر واشنگٹن حکومت کو جلد عملی قدم اٹھانا پڑے گا۔ دوسری صورت میں بغداد کے سفارتی کمپلیکس میں موجود ہزاروں امریکیوں کا تحفظ اور اُنہیں اَشیائے ضرورت کی فراہمی خطرے سے دوچار ہو جائے گی اور یہ ایک ناقابلِ قبول صورتِ حال ہو گی۔ تمام مبصرین کے درمیان اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ بغداد ایئرپورٹ کی جانب آئی ایس کی پیشقدمی کی صورت میں امریکی زمینی دستے سرگرمِ عمل کیے جائیں گے اور وہ بھی سب سے اگلے محاذ پر، اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہے گا۔

اوباما نے ویسٹ پوائنٹ کے آفیسرز اسکول کے کیڈٹوں سے اپنے خطاب میں امریکی فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے پاس دنیا کا بہترین ہتھوڑا ہے لیکن یہ کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر مسئلہ ایک کیل بن جایا کرے۔ غالباً وقت آ گیا ہے کہ اوباما کے مشیر اُنہیں یہ صلاح دیں کہ ہتھوڑے کو اوزار بکس سے نکالنے اور تیار رکھنے کا وقت اب آ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ صدر صاحب کو اُن کی مرضی کے برعکس بہت جلد اس کی ضرورت پڑ جائے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید