رمادی میں حکومت فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا
21 جنوری 2014رمادی میں شروع کیے گئے آپریشن میں سرکاری فوج کو حکومت کے حامی قبائلی ملیشیا کا تعاون بھی حاصل ہے۔ پیر کے روز بھی شدید جھڑپوں کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ رمادی کے اُن حصوں حکومتی فوج کو القاعدہ کے حامی گروپ اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے عسکریت پسندوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ انتہا پسند گروپ کو دو دوسرے سنی عسکری گروپوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ دونوں گروپ بظاہر القاعدہ کے حامی نہیں ہیں لیکن بغداد کی شیعہ حکومت کے مخالف ہیں۔ سرکاری فوج کو پیش آنے والی مزاحمت کی تصدیق مقامی پولیس اہلکاروں نے بھی کی ہے۔
انبار صوبے کے ترجمان ضری الرشاوی کا کہنا ہے کہ مسلح انتہا پسند رات بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور حکومتی فوج کی مختلف پوزیشنوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ الرشاوی نے سرکاری فوج کے پانچ اہلکاروں کی ہلاکت اور پندرہ کے زخمی ہونے کا بھی بتایا۔ الرشاوی نے یہ بھی بتایا کہ القاعدہ کے حامی گروپ نے رمادی کے بعض اونچے مقامات پر ماہر نشانچی بٹھا رکھے ہیں اور یہ حکومتی فوج کی پیشقدمی کو سُست کرنے میں خاصے فعال ہیں۔ الرشاوی نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اسلامی ریاست برائے عراق و شام کے مسلح عسکریت پسندوں کے پاس طاقتور ہتھیار ہیں اور وہ اُن کا استعمال حکومتی فوج کے خلاف کر رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ انبار فوجی مشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رشید فلیح پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ رمادی اور فلوجہ پر حکومتی کنٹرول میں وقت درکار ہو گا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ رمادی پر کنٹرول کے بعد حکومتی فوج کو فلوجہ کے لیے ایک بڑی جنگ کا سامنا ہو گا۔ عراق میں سرگرم حکومت مخالف عسکریت پسند جس طرح کا بھاری اسلحہ فلوجہ میں لا چکے ہیں، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلے ایام میں صورت حال کتنی سنگین ہو سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ حکومتی فوج کو ایک بڑی جنگ کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
عراق کے نائب وزیر داخلہ الاسدی نے عسکریت پسندوں کے طاقتور ہتھیاروں کے تناظر میں کہا کہ اِن بھاری اور طاقتور ہتھیاروں سے وہ بغداد پر بھی قابض ہو سکتے ہیں۔ الاسدی نے یہ واضح نہیں کیا کہ سنی جنگجو کس طرح کا طاقتور اسلحہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ ضرور خبردار کیا کہ رمادی پر کنٹرول کی جنگ آسان نہیں ہو گی۔ دوسری جانب عراقی وزارت داخلہ کے ترجمان سعد معان ابراہیم کا کہنا ہے کہ رمادی پر حکومتی فوجی کارروائی کا آغاز اِس لیے بھی کیا گیا تاکہ بغداد سے سنی جنگجووں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ ابراہیم کے مطابق اگر ملٹری آپریشن کچھ اور دنوں کے لیے مؤخر کر دیا جاتا تو بغداد پر بھی بڑےحملے کا امکان بڑھ جاتا۔ اِس دوران عراق میں القاعدہ گروپ کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے عراق کے سنی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جوق در جوق مسلح جہادیوں کی صفوں میں شامل ہو کر بغداد حکومت کے فوجی آپریشن کو ناکام بنانے میں ان کی مدد کریں۔
اُدھر فلُوجہ شہر کے اندر بھی حالات انتہائی کشیدہ ہونے کے علاوہ سارے شہر میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ پیر کی سہ پہر فائرنگ کے چند واقعات وقوع پذیر ہوئے لیکن رات میں شہر پر گہری خاموشی چھائی رہی۔ فائرنگ کے واقعات میں دو افراد کے زخمی ہونے کا بتایا گیا۔ کچھ گھروں کو نقصان بھی پہنچا۔ بازار زیادہ تر بند ہیں اور جو دوکانیں کھولی گئی تھیں وہ بھی جلد بند کر دی گئیں۔ فلوجہ کی گلیاں بالکل ویران ہو چکی ہیں۔ شہریوں کے مطابق بجلی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے اور رات گُھپ اندھیرے میں گزرتی ہے۔