1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کے مختلف حصوں ميں حملے، درجنوں ہلاک

عاصم سليم16 جنوری 2014

عراق کے مختلف حصوں ميں بدھ کے روز ہونے والے متعدد حملوں ميں کم از کم تہتر افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ دريں اثناء القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے صوبہ انبار ميں مزيد علاقوں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ArOR
Irak Anschlag 15.01.2014 Bagdad
تصویر: picture alliance/AP Photo

عراقی دارالحکومت بغداد ميں بدھ پندرہ جنوری کے دن متعدد سويلين اہداف پر نو کار بم حملے کيے گئے، جِن ميں اب تک مجموعی طور پر 37 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے ايک رپورٹر کے مطابق اِن ميں سے ايک کار بم دھماکا شعب نامی علاقے کی ايک منڈی ميں کيا گيا، جو اُس وقت لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ايک اور حملہ ثنا نامی سڑک پر واقع ايک ہوٹل کے باہر کيا گيا۔ يہ دھماکے شيعہ اکثريتی علاقوں يا ايسے علاقوں ميں کيے گئے، جہاں تمام فرقوں کے لوگ آباد ہيں لیکن ان میں اکثریت شیعوں کی ہے۔

Irak Anschläge Nuri al-Maliki 2011
نوری المالکی نے القاعدہ اور اس سے منسلک گروپوں کے خلاف بين الاقوامی کارروائی کی اپيل کیتصویر: Getty Images

مقامی پوليس کا کہنا ہے کہ بغداد ميں ہلاکتوں کی تعداد اِس سے بھی کافی زيادہ ہو سکتی تھی۔ پوليس اہلکاروں کے مطابق اُنہوں نے چار ايسے مشتبہ خود کش بمباروں کو حراست ميں لے ليا ہے، جِن کا تعلق مبينہ طور پر عرب رياستوں سے ہے۔ پولیس نے ان مبینہ خود کش حملہ آوروں کی قومیتیں ظاہر نہیں کی ہیں۔ اِن چاروں مشتبہ خود کش حملہ آوروں کو مختلف شيعہ علاقوں سے گرفتار کيا گيا تاہم اِن کے بارے ميں تفصيلات جاری نہيں کی گئی ہيں۔ پوليس نے بارود سے لدی کئی گاڑيوں کو بھی اپنے قبضے میں لیا ہے۔

دريں اثناء پندرہ جنوری کو ہی بغداد کے شمال ميں واقع صوبہ ديالا ميں بہروز نامی علاقے ميں ايک جنازے کو خود کش حملے کا نشانہ بنايا گيا، جِس ميں سولہ افراد ہلاک اور بيس ديگر زخمی ہو گئے۔ يہ جنازہ صہوا نامی ايک سنی قبائلی مليشيا کے ايک رکن کا تھا۔ اس گروپ نے اپنے مقامی ساتھيوں کے ساتھ عليحدگی اختيار کرتے ہوئے سن 2006 سے امريکی افواج کا ساتھ دينا شروع کر ديا تھا۔ اِسی ليے ديگر سنی شدت پسند گروہ صہوا کے ارکان کو باغی مانتے ہوئے، انہيں حملوں کا نشانہ بناتے ہيں۔ یہ نوری المالکی حکومت کی حامی بھی ہے۔

Irak Gefechte Falludscha 4.1.2014
عراقی شہر فلوجہ پر سنی انتہا پسندوں نے قبضہ کر رکھا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مرکزی شمالی شہر موصل اور اُس کے نواح ميں متعدد پر تشدد واقعات ميں کم از کم تيرہ افراد ہلاک ہوئے، جِن ميں سے نو فوجی تھے۔ دارالحکومت سے اسی کلوميٹر شمال ميں واقع مقداديہ نامی شہر ميں بھی اينٹيں بنانے والی ايک فيکٹری کے سات ملازمين کو گولياں مار کر ہلاک کر ديا گيا۔ اگرچہ عراق کے مختلف حصوں ميں بدھ کے روز ہونے والے خون خرابے کی کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہيں کی ہے تاہم عام طور پر القاعدہ سے منسلک ’اسلامک اسٹيٹ آف عراق اينڈ شام‘ سے تعلق رکھنے والے سنی جنگجو ايسے حملے کرتے ہيں۔

دوسری جانب عراقی فوج کے کمانڈوز نے فضائیہ کی مدد سے فلوجہ شہر کے قریب واقع صقلاویہ نامی قصبے پر حملہ کر کے اُس پر قبضہ کر لیا ہے۔ عراقی فوج کے اس بھاری آپریشن کے باعث سنی انتہا پسند مقبوضہ قصبے سے پسپائی اختیار کر گئے۔ صقلاویہ کا قصبہ فلوجہ شہر کے شمال میں ہے۔ فلوجہ پر پہلے ہی القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے سنی انتہا پسند قابض ہیں۔ دوسری جانب فلوجہ اور رمادی سے سویلینز کی نقل مکانی جاری ہے۔

عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے القاعدہ اور اس سے منسلک گروپوں کے خلاف بين الاقوامی کارروائی کی اپيل کی ہے۔ المالکی نے دہشت گردوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چيت کو خارج از امکان قرار ديا ہے۔ وزیر اعظم نوری المالکی نے متنبہ کیا ہے کہ صوبے الانبار میں القاعدہ کے خلاف جنگ آسان نہیں لہذا عراقی افواج کو پوری جانفشانی سے مقبوضہ علاقوں کو بازیاب کروانا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید