دو زبانیں بولنے والوں میں نسیان کا مرض تاخیر سے، نئی تحقیق
7 نومبر 2013اس سلسلے میں صرف یہ بات ہی اہم نہیں کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے افراد میں ممکنہ طور پر نسیان یا بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری عام طور پر کئی سال کی تاخیر سے دیکھنے میں آ سکتی ہے بلکہ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ متعلقہ افراد میں ایک سے زائد زبانیں بولنے کے علاوہ پڑھنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے یا نہیں۔
اس موضوع پر ایک نئی تحقیق کے نتائج امریکی طبی تحقیقی جریدے ’جرنل آف نیورولوجی‘ میں بدھ چھ نومبر کو شائع ہوئے۔ اپنی نوعیت کی اس اوّلین ریسرچ نے ثابت کر دیا ہے کہ کم از کم دو زبانیں بولنے والے افراد میں ان کی ایسی لسانی صلاحیتوں کے طبی حفاظتی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں بلکہ کثیراللسانی صلاحیتوں کے مالک انسانوں میں اس امر کے ان کی اعصابی اور ذہنی صحت پر حفاظتی اثرات بظاہر اس وجہ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے کہ ایسے انسان خواندہ ہیں یا ناخواندہ۔
اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے بھارت میں 648 افراد کو زیر مشاہدہ رکھا۔ ان سب میں کسی نہ کسی صورت میں نسیان یا ڈیمنشیا کا مرض پایا جاتا تھا۔ اس گروپ کے ارکان کی اوسط عمر 66 برس تھی۔
ان مریضوں کے ذاتی نوعیت کے تفصیلی اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ یہ چلا کہ ایسے مریضوں کے مقابلے میں جو صرف کوئی ایک زبان بولتے تھے، دو زبانیں بولنے والے مریضوں میں نسیان کی بیماری کے اوّلین آثار اوسطاﹰ ساڑھے چار سال کی تاخیر سے ظاہر ہونا شروع ہوئے۔
اس طبی تحقیقی مطالعے میں شامل افراد میں سے 14 فیصد ناخواندہ تھے اور ماہرین کو یہ طے کرنے میں بھی کوئی دشواری پیش نہ آئی کہ چاہے کوئی مریض پڑھنے لکھنے کے قابل تھا یا نہیں، جو کوئی بھی دو زبانیں بولتا تھا، اس میں ڈیمنشیا کا مرض محض ایک زبان بولنے والے کسی بھی مریض کے مقابلے میں چار یا پانچ سال کی تاخیر سے دیکھنے میں آیا۔
اس ریسرچ کے مطابق ڈیمنشیا کے آثار ظاہر ہونے کے بعد جب مریضوں کی یاداشت ختم ہونا شروع ہوئی، جس میں الزہائمر اور ویسکولر ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے، تو بھی مریضوں کی صحت پر اس وجہ سے کوئی مختلف اثرات دیکھنے میں نہ آئے کہ ان کے تعلیمی، جنسی، پیشہ ورانہ، رہائشی اور سماجی پس منظر کیا تھے۔
بھارتی شہر حیدر آباد میں قائم نظام انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ماہر اور اس مطالعاتی رپورٹ کی مصنفہ سُووارنا الادی نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہماری تحقیق اس شعبے کی پہلی ریسرچ ہے، جس نے ثابت کیا ہے کہ ناخواندہ افراد میں دو زبانیں بولنے والوں کو ایک زبان بولنے والوں پر طبی حوالے سے ایک طرح کی برتری حاصل ہے۔‘‘
سُووارنا الادی کا کہنا ہے کہ ایک سے زائد زبانیں بولنے کے بارے میں خیال ہے کہ یوں کسی بھی انسان کے دماغ کے وہ حصے اپنی کارکردگی میں بہتر ہو جاتے ہیں، جو توجہ کے حوالے سے مختلف فرائض انجام دیتے ہیں اور یوں ڈیمنشیا یا نسیان کا آغاز دیر سے ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈیمنشیا کے دو زبانیں بولنے والے مریضوں اور دو سے زائد زبانیں بولنے والے متاثرہ افراد کے درمیان کوئی اضافی فرق نظر نہیں آیا۔