حمص کے محصور علاقوں سے شہریوں کا انخلاء شروع
8 فروری 2014شام کی حکومت اور باغیوں کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت حمص میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فائر بندی کا نفاذ ہو گیا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے اپنے ایک نمائندے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حمص میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے ایک بس تقریباﹰ بارہ شہریوں کو لے کر واپس پہنچ گئی ہے۔ ہفتے کو تقریباﹰ دو سو شہریوں کو وہاں سے نکالا جائے گا۔
شام کے سرکاری ٹیلی وژن پر دکھائے گئے مناظر میں باغیوں کے زیر قضبہ علاقوں سے باہر ایک بس کو دکھایا گیا ہے۔ شام کے تیسرے بڑے اس شہر کے ان علاقوں میں اطلاعات کے مطابق تین ہزار شہری گزشتہ کئی مہینوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔
فریقین کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت باغیوں کے علاقوں میں امدادی سامان بھی پہنچایا جائے گا۔ حمص کے گورنر طلال برازی نے جمعے کو بتایا کہ دواؤں اور خوراک کی پہلی کھیپ محصور شہریوں تک ہفتے کو ہی پہنچ پائے گی۔
امدادی سامان ایک عرصے سے باغیوں کے زیر قبضہ شہر کے پرانے علاقے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر حکومتی کنٹرول کے علاقے میں موجود اقوام متحدہ کے ایک ویئر ہاؤس میں موجود ہے۔ ان علاقوں تک امدادی ٹیموں کو رسائی دینے کے لیے ہونے والی بات چیت طول پکڑتی رہی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق محصورین کی تعداد کم از کم بارہ سو ہے جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ انتہائی کم خوراک پر گزارہ کرتے رہے ہیں۔
برازی نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ صوبائی حکومت، اقوام متحدہ اور ہلالِ احمر کی ایک مشترکہ ٹیم پہلے ہی انخلاء کے عمل کی نگرانی کے لیے شہر کے پرانے علاقے میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لاجسٹک مسائل کی وجہ سے یہ عمل تاخیر کا شکار ہوا ہے۔
قبل ازیں سرکاری ٹیلی وژن پر بتایا گیا تھا کہ امدادی کارروائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اے ایف پی کے ایک نمائندے نے بتایا تھا کہ اس نے دو بسوں، ایک ایمبولینس اور ہلالِ احمر کی دو گاڑیوں کو محصور علاقوں کی جانب جاتے دیکھا ہے۔
برازی کا کہنا تھا کہ ہفتے کو تقریباﹰ بارہ سو افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا: ’’کل (ہفتے کو) خوراک اور امدادی سامان کی پہلی کھیپ اولڈ سٹی میں موجود ضرورت مندوں تک پہنچ جائے گی۔‘‘