شام کے ليے امريکی پاليسی، تنازعے کی زد ميں
4 فروری 2014امريکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جين ساکی نے پير کے روز اِس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک شام ميں انسانی بحران اور خانہ جنگی کا خاتمہ نہيں ہو جاتا، واشنگٹن انتظاميہ ميں شامل کوئی بھی اہلکار يہ نہيں سمجھتا کہ امريکا جو اقدامات کر رہا ہے، وہ کافی ہيں۔ تاہم انہوں نے واضح کيا کہ وزير خارجہ جان کيری نے کسی بھی مقام پر ايسا نہيں کہا کہ شام پر امريکی پاليسی ناکام ہو چکی ہے۔
اس سے قبل چند بااثر ری پبلکن سينيٹروں کے ذرائع سے ايسی رپورٹيں سامنے آئی تھيں کہ جان کيری نے جرمن شہر ميونخ ميں گزشتہ ہفتے منعقدہ سالانہ سکيورٹی کانفرنس کے موقع پر اس جانب اشارہ کيا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ايک رپورٹ ميں ری پبلکن سينيٹرز جان مک کين اور لنڈسے گريہم کے ذرائع سے لکھا ہے، ’کيری نے ميونخ ميں تسليم کيا کہ وہ ايک ايسے مقام پر ہيں، جہاں انہيں اپنی حکمت عملی ميں تبديلی لانا ہوگی۔‘
اس کے رد عمل ميں ساکی نے تين فروری کے روز رپورٹروں سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ميونخ ميں امريکی قانون سازوں کی قريب ايک گھنٹہ طويل اس ملاقات ميں بذات خود شريک تھيں اور اس دوران کسی بھی مقام پر وزير خارجہ کيری نے ايسا نہيں کہا کہ امريکی پاليسی ناکام ہو چکی ہے۔ ساکی نے ايسی رپورٹوں کو بھی رد کر ديا کہ کيری کی جانب سے اپوزيشن باغيوں کو مسلح کرنے کے حوالے سے کوئی بات چيت کی گئی تھی۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان کے بقول، ’’يہ لازمی ہے کہ ہم اِس پر غور کريں کہ مزيد کيا کچھ کيا جا سکتا ہے ليکن اِسے حکمت عملی ميں تبديلی سے تعبير نہيں کيا جا سکتا۔‘‘
امريکا کے اہم اتحادی ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کی جانب سے کڑی تنقيد کے باوجود صدر باراک اوباما شامی اپوزيشن کے حمايت يافتہ باغيوں کو بھاری اسلحہ کی فراہمی کو خارج از امکان قرار ديتے آئے ہيں۔ واشنگٹن کی جانب سے شامی باغيوں کی سپريم ملٹری کونسل کو غير مہلک فوجی ساز و سامان فراہم کيا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے امريکی ذرائع ابلاغ ميں ايسی رپورٹيں بھی جاری کی گئی تھيں کہ باغيوں کو کچھ ہلکے ہتھيار مہيا کيے گئے ہيں تاہم تاحال ان رپورٹوں کی تصديق نہيں ہو پائی ہے۔
باراک اوباما آئندہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کريں گے، وائٹ ہاؤس
وائٹ ہاؤس نے پير کے روز اس کی تصديق کر دی ہے کہ صدر اوباما آئندہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کريں گے، جہاں وہ شاہ عبداللہ سے بھی ملاقات کريں گے۔ اطلاعات ہيں کہ اس دورے ميں شام اور ايران کے حوالے سے دو ٹوک بات چيت متوقع ہے۔