’حجاب کا تنازعہ‘، قطری خواتین باسکٹ بال ٹیم ایشیائی گیمز سے دستبردار
25 ستمبر 2014جنوبی کوریا میں جاری سترہویں ایشیائی گیمز میں باسکٹ بال کھیل کے بین الاقوامی قوانین کے تحت قطری خواتین کی باسکٹ بال ٹیم کو میچ کے دوران حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے قطری حکام نے اپنی ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ قطر کی خواتین کی باسکٹ بال ٹیم نے جمعرات کے دن نیپال کے خلاف میچ کھیلنا تھا تاہم وہ مقررہ وقت پر اسٹیڈیم نہ پہنچی۔ کئی حلقے حجاب پہن کر مقابلوں میں شرکت کرنے کے خلاف موجود اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک بھی قرار دے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی نے ایشیائی گیمز میں قطری دستے کے سربراہ خلیل الجابر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی خواتین باسکٹ بال ٹیم وطن واپس جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ قبل ازیں انہوں نے کہا تھا کہ یا تو ان کی خواتین کو حجاب پہن کر کھیلنے کی اجازت دے دی جائے یا اُنہیں اس مقابلے سے خارج کر دیا جائے۔
قطری خواتین باسکٹ ٹیم نے منگولیا کے خلاف اپنا افتتاحی میچ بھی اس تنازعے کی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیا تھا، جس کے نتیجے میں منتظمین نے منگولیا کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا تھا۔
خلیل الجابر نے صحافیوں کا بتایا ہے کہ وہ کسی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ ان کی ٹیم کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ’’ہم کھیلوں کے دوران کوئی قانون نہیں توڑ رہے بلکہ ہمیں کھیلنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف تو ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ خواتین زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان کھیلوں میں شرکت کریں جب کہ دوسری طرف ایسی خواتین کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، جو حجاب کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہیں۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ ایشیائی گیمز کے دوران متعدد کھیلوں میں خواتین حجاب پہن کر شرکت کر سکتی ہیں لیکن باسکٹ بال کے منتظم عالمی ادارے FIBA نے اس مخصوص کھیل میں حجاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اسی تناظر میں ایشیائی گیمز کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں FIBA کی طرف سے کوئی خاص ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں کہ وہ خواتین کو سر ڈھانپ کر کھیلنے کی اجازت دے، اس لیے وہ بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
باسکٹ بال کے منتظم عالمی ادارے نے وضاحت کی ہے کہ مخصوص حالات میں قومی سطح پر منعقد کیے جانے والے ٹورنامنٹوں میں کھلاڑیوں کو حجاب یا ہیڈ اسکارف پہن کر حصہ لینے کی اجازت ہے لیکن ایشیائی گیمز ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہے۔ ان مقامی سطح پر ہونے والے مقابلوں کی تجزیاتی رپورٹوں کی پڑتال کے بعد FIBA آئندہ برس غور کرے گی کہ آیا بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں بھی کسی کو سر ڈھانپ کر کھیلنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔