جنیوا ٹو کانفرنس، شام میں قیام امن کے لیے ایک اہم موقع
26 نومبر 2013امریکی حکومت نے آئندہ برس بائیس جنوری کو شام پر منعقد کرائی جانے والی امن کانفرنس کو وہاں عبوری حکومت کے قیام اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ’انتہائی اہم موقع‘ قرار دیا ہے۔ پیر کے دن امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق، ’’شام میں خون خرابے کے خاتمے اور شامی عوام کی خواہشات کو حقیقت کو رنگ پہنانے کے لیے شام کو ایک نئی قیادت درکار ہے۔‘‘ قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کئی ماہ کی کوششوں کے بعد بالآخر اعلان کر دیا تھا کہ جنیوا ٹو کانفرنس بائیس جنوری کو منعقد کی جائے گی۔
مارچ 2011ء میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کے بعد پہلی مرتبہ شامی حکومت اور باغیوں کے نمائندے اس کانفرنس میں مذاکرات کی میز پر اکٹھے جمع ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ہمراہ مئی سے اس کوشش میں تھے کہ اس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو سکے تاکہ شام کا تنازعہ ختم کرایا جا سکے۔ گزشتہ بتیس مہینوں سے جاری شامی بحران کے باعث ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ لاکھوں انسان بے گھر ہو چکے ہیں۔
جان کیری نے جنیوا ٹو امن کانفرنس سے وابستہ امیدوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اگر اس کانفرنس کے دوران شام میں نئی قیادت پر اتقاق رائے کر لیا جاتا ہے تو یہ شامی عوام کی مصیبتوں کے خاتمے کے لیے ایک انتہائی اہم پیشرفت ہو گی۔‘‘ انہوں ںے مزید کہا کہ اس کانفرنس کی کامیابی کی صورت میں خطے میں بھی استحکام پیدا ہو سکے گا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ شام میں سیاسی حل کا راستہ کوئی آسان نہیں ہے اور اس میں متعدد رکاوٹیں اور مشکلات موجود ہیں۔
صدر اسد کا مستقبل ایک مسئلہ
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن حکومت اقوام متحدہ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کانفرنس سے متعلق اختلافی معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی اس بارے میں بھی مشاورت کی جائے گی کہ اس کانفرنس میں کن ممالک کو مدعو کیا جائے گا اور اس کا ایجنڈا کیا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنیوا ٹو کانفرنس کے لیے شامی حکومت اور باغیوں کو اپنے اپنے وفود تیار کرنا ہوں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ شامی باغیوں کے تمام تر گروہ اگرچہ اس بات پر قائل ہیں کہ شام کی آئندہ عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے تاہم ان میں اس بات پر ابھی تک اختلافات پائے جاتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ میں بائیس جنوری کو ہونے والی اس کانفرنس میں ان کی نمائندگی کون کرے گا۔ دوسری طرف صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے لیے پہلے سے شرائط نہیں رکھنا چاہییں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کا حکومت سے الگ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
شام کے لیے عالمی مندوب لخضر براہیمی نے اس کانفرنس کے انعقاد کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران عالمی برادری کا بنیادی مقصد یہ ہو گا کہ شام میں ایک عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ روس، امریکا اور اقوام متحدہ کے مندوبین بیس جنوری کو ایک ملاقات کریں گے، جس میں اس کانفرنس کا ایجنڈا اور شرکا کی فہرست تیار کی جائے گی۔ براہیمی نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر سعودی عرب اور ایران دونوں کو ہی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جا سکتی ہے۔