1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں جسم فروشی: شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ

30 ستمبر 2023

جرمنی میں اپوزیشن جماعت سی ایس یو کی ایک مرکزی خاتون رہنما نے ملک میں جنسی خدمات کی خریداری پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول ’’یورپ کا قحبہ خانہ‘‘ بن چکے جرمنی میں اس حوالے سے شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/4WvQr
ہیمبرگ کا ریپر بان نامی حصہ، جو ریڈ لائٹ ایریا کے طور پر پورے یورپ میں جانا جاتا ہے
شمالی جرمن شہر ہیمبرگ کا ریپر بان نامی حصہ، جو اپنے ریڈ لائٹ ایریا کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہےتصویر: Stanislav Belicka/imagebroker/IMAGO

جرمنی میں اس وقت وفاقی چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی یا ایف ڈی پی پر مشتمل ایک مخلوط حکومت اقتدار میں ہے۔ اس کے برعکس قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور صوبے باویریا میں اس جماعت کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو پر مشتمل پارلیمانی دھڑا سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر کام کر رہا ہے۔

قحبہ خانے کو دو لاکھ پچاس ہزار یورو زرتلافی ادا کر دیا گیا

دونوں یونین جماعتوں کے وفاقی پارلیمان میں مشترکہ حزب کی نائب سربراہ اور سی ایس یو کی خاتون سیاست دان ڈوروتھی بیئر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں جسم فروشی کرنے والے لاکھوں انسانوں کی پریشان کن صورت حال کے پیش نظر، جن میں بہت بڑی اکثریت خواتین کی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکس سروسز کی خریداری پر قانوناﹰ ملک گیر پابندی لگا دی جائے۔

بیلجیئم، سیکس ٹریفکنگ کی تفتیش کے دوران 25 افراد گرفتار

جرمن شہر فرینکفرٹ کا ریڈ لائٹ ایریا
جرمن شہر فرینکفرٹ کا ریڈ لائٹ ایریا اس شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی واقع ہےتصویر: Schöning/IMAGO

جسم فروشی پر بالواسطہ عملی پابندی

ڈوروتھی بیئر نے سب سے کثیر الاشاعت جرمن روزنامے 'بِلڈ‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں جسم فروشی اور جنسی خدمات کی خرید و فروخت کے حوالے سے موجودہ ''سوچ اور رویوں کو فوری طور پر بدل دینے‘‘ کی ضرورت ہے۔

کرسچن سوشل یونین کی اس خاتون رہنما کے مطابق یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی اور سب سے بڑی معیشت والے ملک میں رقم دے کر سیکس سروسز کا حصول باقاعدہ طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔

ہندو دیوی کے نام پر جنسی غلام بن کر رہنے والی بھارتی خواتین

باویریا سے تعلق رکھنے والی اس قدامت پسند سیاست دان کے الفاظ میں، ''اس طرح جرمنی میں ایک پیشے کے طور پر جسم فروشی بالواسطہ طور پر ممنوع ہو جائے گی اور یہ بات خواتین کی صورت حال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔‘‘

جرمن شہر ہالے میں ایک قحبہ خانے کے ایک خالی بیڈ روم کا منظر
ڈوروتھی بیئر کی تجویز ہے کہ جرمنی میں سیکس سروسز خریدنا قانوناﹰ ممنوع قرار دے دیا جائےتصویر: Getty Images/AFP/J. Schlueter

پورے ملک میں تقریباﹰ ڈھائی لاکھ جسم فروش

بنڈس ٹاگ میں یونین جماعتوں کے مشترکہ پارلیمانی دھڑے کی نائب سربراہ نے کہا کہ تازہ ترین اندازوں کے مطابق پورے جرمنی میں جسم فروش افراد کی تعداد تقریباﹰ ڈھائی لاکھ بنتی ہے، جن کی بہت بڑی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔

جنسی مقاصد کے لیے سیاحت: جب ضمیر بھی چھٹی پر چلا جائے

ان چوتھائی ملین کے قریب انسانوں میں سے بہت بڑی تعداد بیرون ملک سے آنے والوں کی ہے اور ان کی تعداد کا بہت معمولی سا حصہ ایسا ہے، جس نے متعلقہ جرمن اداروں کے ہاں خود کو باقاعدہ سیکس ورکرز کے طور پر رجسٹر کروا رکھا ہے۔

ڈوروتھی بیئر نے روزنامہ 'بِلڈ‘ کو بتایا، ''جرمنی اب نہ صرف یورپ کا قحبہ خانہ بن چکا ہے بلکہ اس کا شمار عالمی سطح پر اب ان ممالک میں بھی ہوتا ہے، جنہیں جنسی مقاصد کے لیے سیاحتی نقطہ نظر سے بہت پرکشش سمجھا جاتا ہے۔‘‘

جسم فروشی ایک پیشہ ہے جس کی سکیورٹی اور وقار کا پاس رکھا جائے، سپریم کورٹ

بھارت کا ایک ایسا ضلع، جسم فروشی جہاں ایک روایت

شمالی یورپی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ

بنڈس ٹاگ کی رکن ڈوروتھی بیئر نے مطالبہ کیا کہ جرمنی میں بھی اب جسم فروشی کے حوالے سے شمالی یورپی ماڈل نافذ کیا جانا چاہیے، مثال کے طور پر ویسے ہی قوانین جیسے سویڈن میں بھی نافذ ہیں۔

جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے سو ارب ڈالر کی کمائی

اس نارڈِک ماڈل کے تحت جنسی خدمات کی خریداری ایک قابل سزا جرم ہے لیکن اگر ایسا کیا جائے تو سزا سیکس سروسز خریدنے والے کو ملتی ہے، نہ کہ ایسی خدمات مہیا کرنے والے کسی فرد کو۔

سی ایس یو کی اس خاتون رہنما نے اپنے مطالبے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا، ''سویڈن کی مثال نے ثابت کر دیا ہے کہ سیکس سروسز خریدنے پر پابندی سے سیکس ورکرز کی تعداد میں واضح کمی ہو جاتی ہے۔‘‘

جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہیں

جرمنی میں جسم فروشی کی قانونی اجازت کیوں ہے؟

جرمنی میں جسم فروشی کی قانونی حیثیت

وفاقی جمہوریہ جرمنی میں 2002ء میں اس دور کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی جماعت پر مشتمل ریڈ گرین حکومت نے جسم فروشی کو باقاعدہ قانون سازی کر کے مکمل طور پر ایک قانونی پیشہ قرار دے دیا تھا۔

جرمنی: ’پاشا‘ قحبہ خانہ دیوالیہ ہو گیا

اس کے بعد 2017ء میں جرمنی میں اضافی طور پر وہ قانون بھی نافذالعمل ہو گیا تھا، جس کا مقصد جسم فروشی کرنے والے افراد کا تحفظ تھا۔

اس قانون کے تحت جسم فروشی کرنے والے افراد کی قانونی حیثیت اور حقوق مضبوط بنا دیے گئے تھے اور ساتھ ہی وہ جملہ لازمی ضوابط بھی طے کر دیے گئے تھے، جو ایک کاروباری شعبے کے طور پر جسم فروشی کے پیشے کا احاطہ کرتے ہیں۔

م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)