پاک بھارت تعلقات اور من موہن سنگھ
30 دسمبر 2024منموہن سنگھ بھارت کے آخری وزیر اعظم تھے، جنہوں نے 1947 کی تقسیم دیکھی۔ چکوال میں واقع ان کی جنم بھومی 'گاہ‘ میں ان کے دادا ایک بلوے میں قتل ہوئے تھے اور یہ تلخ یاد وہ کبھی اپنے دل سے کھرچ نہ سکے۔
آبائی گاؤں کی مساجد میں گیزر، گھروں میں سولر پینل اور گلیوں میں اسٹریٹ لائٹس لگوانے والےمنموہن سنگھ تین بار پاکستان آنے کے باوجود اپنی جنم بھومی دیکھنے کیوں نہیں گئے؟
پیپل کا درخت، تالاب اور پرائمری سکول: گاہ میں گزرا منموہن سنگھ کا بچپن کیسا تھا؟
منموہن سنگھ کی وفات کے بعد اسلام آباد سے تقریباً سو کلومیٹر دور چکوال کے ایک گاؤں 'گاہ‘ میں غیر معمولی جذباتی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ تمام مرد ایک جگہ جمع ہو کر اپنے 'موہنے‘ کو یاد کر رہے تھے۔ اکیانوے سالہ محمد خان باقی لوگوں کی نسبت زیادہ جذباتی تھے کیونکہ موہنا ان کا گرائیں ہی نہیں کلاس فیلو بھی تھا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ”گاؤں میںسکھ کافی تعداد میں تھے، مسجد اور گردوارہ دونوں آباد اور زندگی کا پہیہ رواں تھا۔ صرف ہمارے گاؤں میں اسکول تھا جہاں آس پاس سے لڑکے بھی پڑھنے آ جاتے تھے۔ موہنا ہمارے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتا، ساتھ کھیلتا اور جیٹھ ہاڑ کی دوپہروں میں تالاب میں نہاتا۔ یہاں لگے پیپل کے درختوں کی چھاؤں تلے ہم روزانہ گھنٹوں کھیلتے رہتے۔"
وہ کہتے ہیں، ”تقسیم کے وقت ہمارے گاؤں پر کسی دوسرے گاؤں سے حملہ ہوا جس میں بہت سے سکھ قتل ہوئے۔ موہنا تب پشاور میں اپنے والد کے ساتھ تھا۔ بلوے میں اس کا دادا بھی مارا گیا۔"
گاہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ریکارڈ کے مطابق منموہن سنگھ سترہ اپریل 1937 میں اسکول داخل ہوئے اور چار جماعت تک یہاں پڑھا۔ ان کے والد کا نام گرمکھ سنگھ، ذات کوہلی اور پیشہ دکان داری تھی۔
پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے پاس پشاور چلے گئے اور خالصہ ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔
ماں محفوظ، باپ قتل: چار لفظی ٹیلی گرام جو منموہن سنگھ کبھی نہ بھول سکے
پنجاب کے سابق وزیر خزانہ پریت سنگھ بادل اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ میں نے ایک بار منموہن سنگھ سے آبائی گاؤں دوبارہ نہ جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”بطور وزیر اعظم آپ کا بڑا شاندار استقبال ہوتا۔" منموہن سنگھ نے جواب میں کہا، ”یادیں بہت تلخ ہیں۔"
یہ تلخ یادیں دراصل تقسیم اور ہجرت کے دوران ہونے والے ان کے قریبی رشتہ داروں کے خون سے جڑی تھیں۔
مصنف راجیو شکلا "Scars of 1947" کے نام سے شائع ہونے والی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ منموہن کی پرورش ان کے دادا نے کی تھی۔ دونوں کے درمیان شدید جذباتی وابستگی تھی۔ دادا کو قتل کر دیا گیا۔ تب منموہن سنگھ اپنے والد کے پاس پشاور میں تھے۔ ”چکوال میں موجود ان کے چچا نے اپنے بھائی کے نام چار لفظی ٹیلی گرام بھیجا، ’’ماں محفوظ، باپ قتل۔‘‘ تب منموہن سنگھ پندرہ سال کے تھے اور انہیں آج بھی یہ ٹیلی گرام یاد ہے۔
راجیو شکلا آگے چل کر لکھتے ہیں کہ دادا کے قتل کی تلخ یاد منموہن کے حافظے پر ہمیشہ نقش رہی۔ وہ 1968 میں اپنے کیمبرج کے دوست محبوب الحق سے ملنے پاکستان پہنچے تو راولپنڈی کی پرانی بک شاپ اور حسن آباد کے گردوارہ پنجہ شریف بھی گئے۔ جب ان سے جنم بھومی وزٹ کرنے کی بات کی گئی تو ان کا جواب تھا، جہاں میرے دادا کو بیدردی سے قتل کیا گیا تھا میں وہاں جا کر دوبارہ اس صدمے سے نہیں گزرنا چاہتے۔
وہ اس کے بعد مزید دوبار پاکستان آئے، 1984 اور 2019 میں، لیکن اپنے گاؤں جانے کا ارادہ کبھی نہیں باندھا۔
کمرے میں آویزاں پورٹریٹ، چکوال کی ریوڑی، کھسہ اور گاہ کی مٹی اور پانی
منموہن سنگھ کبھی دوبارہ اپنے گاؤں نہیں گئے لیکن ایک تعلق برقرار رہا۔ مقامی صحافی علی خان ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ''2004 میں ان کے وزیراعظم بننے کے بعد اچانک 'گاہ‘ پر میڈیا کی توجہ مبذول ہوئی۔ یہیں سے وہ رشتہ دوبارہ جڑا جو بظاہر 1947 میں کٹ گیا تھا۔ بھارت کے مختلف چینلز نے گاہ میں مشکلات حالت زندگی کا ذکر کیا، بدلے میں اکیاون گھروں کو سولر پینل اور سولہ اسٹریٹ لائٹس کا تحفہ ملا۔"
وہ کہتے ہیں گاؤں کے لوگوں کو جس چیز نے متاثر کیا وہ مساجد کے لیے گیزر لگوانا تھا۔ منموہن سنگھ کے دادا قتل ہوئے لیکن ان کی دادی کو یہاں کے لوگوں نے پناہ بھی تو دی۔ معاشرے میں ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ''موہنے نے اچھے رویے کو یاد رکھا۔‘‘
منموہن سنگھ کے ایک کلاس فیلو راجا محمد علی انہیں 2008 میں دہلی ملے تھے۔ ان کے بھتیجے اور سابق یو سی ناظم عاشق حسین ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”انہیں چکوال کا کھسا، ریوڑیاں، گاہ کی مٹی اور پانی پیش کیا گیا۔ تلے والے سنہرے کھسے میں ان کی تصویر بھی ہے۔ یہ پورے گاؤں کے لیے غیر معمولی لمحہ تھا۔"
منموہن سنگھ کی بیٹی دمن سنگھ "strictly personal" میں ان کے کمرے میں آویزاں پورٹریٹ، ان کے چکوالی ریوڑی کھانے اور گاہ کا پانی پینے کا ذکر کیا ہے۔ دمن سنگھ مذکورہ کتاب میں لکھتی ہیں، '' گاہ کی مٹی سے بھرا لفافہ وصول کرتے ہوئے، ان کے چہرے پر جذباتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں یادوں کی چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔"
جب پاک بھارت تعلقات میں بہتری پر منموہن سنگھ نے کہا، 'تسی مینوں مروا نہ دینا‘
ڈی ڈبلیو اردو کو مشاہد حسین سید نے بتایا ہے، ''جب چوہدری شجاعت حسین اور میں 2006 میں دہلی میں وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملے تو میں نے ان سے پنجابی میں کہا، ’’دل وڈا کرو‘‘ اور چوہدری شجاعت حسین نے بھی کہا، ''ہن وقت آ گیا ہے کوئی معاہدہ کریے، تُسی وی اگے ودو۔‘‘ اس پر منموہن سنگھ نے ہنستے ہوئے پنجابی میں جواب دیا، ”تُسی مینوں مروانا نہ دینا۔" وہ کہتے ہیں، ”پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے منموہن سنگھ کا رویہ ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔"
چکوال کے رہائشی اور دانشور جاوید ملک کہتے ہیں، ”یہ ہمدردانہ رویہ، یہ مذہبی رواداری گاہ کے پانی میں ہے۔ انڈیا کے کیسے کیسے نامور سیاستدان اُن علاقوں میں پیدا ہوئے جو آج کے پاکستان میں ہیں، مگر شاید ہی کبھی کسی نے اپنی دھرتی کے بیٹے کو ایسے اپنایا ہو جیسے گاہ والوں نے 'موہنے‘ کو؟ ہمارے پورے خطے کو ایسے والہانہ رویے اور وسعت قلبی کی ضرورت ہے۔"