جاوید اقبال: پاکستان میں کارٹونوں کے ذریعے طنز کے پچپن برس
8 دسمبر 2024کارٹون بنانے کے فن کو پچپن سال دینے والے پاکستان کے سینئر ترین کارٹونسٹ جاوید اقبال کہتے ہیں کہ مطبوعہ صحافت کے زوال کے ساتھ اب کارٹون بنانے کا فن بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں جاوید اقبال نے بتایا کہ کارٹون بنانا پاکستان میں ایک '' مرتا ہوا آرٹ ‘‘ ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے دو بڑے قومی روزناموں نے اب کارٹون شائع کرنے بند کر دیے ہیں۔ ''ایک وقت وہ تھا جب لندن، کراچی، کوئٹہ ، لاہور اور پشاور سمیت کوئی دس لاکھ سے زائد افراد تک میرا کارٹون روزانہ پہنچتا تھا ایک آج کا دور ہے جب اخبار بند ہو رہے ہیں اور ان کی سرکولیشن بہت کم ہو گئی ہے۔ ‘‘
اس عہدساز آرٹسٹ کا کہنا تھا، ''اس وقت ملک میں کارٹون بنانےکی تربیت دینے والا کوئی منظم اور موثر ادارہ نہیں ہے۔ ملک میں کوئی اٹھارہ کے قریب نمایاں کارٹونسٹ ہیں، جن کی کوئی باقاعدہ ایسوسی ایشن نہیں ہے۔ چھوٹے کارٹونسٹوں کی تنخواہیں اس قدر کم ہیں کہ ان کا بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔‘‘
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ستتر سالہ جاوید اقبال پچھلے پچپن سالوں سے کارٹون بنا رہے ہیں اور وہ اب تک بائیس ہزار سے زیادہ خاکے بنا چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا کوئی ایک بھی کارٹون ان کے کسی دوسرے کارٹون سے نہیں ملتا۔ وہ فری ہینڈ ڈرائنگ پر مبنی کارٹون بنانے والے پاکستان کے اپنی نوعیت کے واحد آرٹسٹ ہیں۔
جاوید اقبال کی نو کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کے فیس بک پر ساٹھ ہزار سے زائد فالوورز ہیں۔ وہ ایک زمانے میں ٹی وی پر بھی کارٹون بناتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے اردو اخبار جنگ سے منسلک ہیں اس سے قبل وہ نوائے وقت، امروز، اردو ڈائجسٹ، دھنک اور چاند میگزین کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔
ان کی کام کے اعتراف کے طور پر جاوید اقبال کو تمغہ حسن کارکردگی اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) ایوارڈ سمیت کئی دیگر ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ جاوید اقبال لاہور کے علاقے گلبرگ میں رہتے ہیں اور حکومت نے ان کے گھر والی گلی کی سڑک کو ان کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔
مصنوعی زہانت انسانی ہنر کے سامنے ہیچ
ایک سوال کے جواب میں جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اب ویڈیو کارٹوننگ کا زمانہ ہے نئے بچے ''اینی میٹڈ‘‘ فلموں کی طرف جانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ٹولز نے لوگوں کو ہاتھوں کی محنت سے دور کر دیا ہے۔ '' جس طرح ہاتھ کی کتابت اور کیلیگرافی کمپیوٹر کی کمپوزنگ سے بہتر ہوتی ہے اسی طرح اب بھی انسانی دماغ کمپیوٹر سے بہتر ہے، ہاتھ سے بنائے گئے ''آرگینک‘‘ کارٹون کا مقابلہ کمپیوٹر سے بنائے گئے کارٹون نہیں کر سکتے۔ آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں لوگوں کا اپنے کارٹون بنوا کر اور انہیں فریم کروا کر گھروں میں لگانا ایک خوش کن امر سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘
کارٹون ایک پاورفل میڈیم
پاکستان میں ماضی کی طرح اب بھی میڈیا زیر عتاب ہی رہتا ہے لیکن جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ ان کا کارٹون کبھی سنسر نہیں ہوا۔ '' کارٹون کی بھی اخلاقیات ہوتی ہے۔ میں کسی کا چہرہ نہیں بگاڑتا، مذہب اور حساس امور کو موضوع نہیں بناتا، میں فحاشی پر مبنی کارٹون بھی نہیں بناتا۔ جن لوگوں کا کارٹون بناتا ہوں وہ بھی میری شرارتی لکیروں کو دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ مجھے ڈکٹیشن تو کبھی نہیں ملی البتہ ایک مرتبہ ضیاء الحق نے ازراہ مذاق میرے ایک عزیز کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ میرے کانوں پر اتنے بال نہیں ہیں، جتنے تم بنا دیتے ہو۔ ضیاء الحق کے ریفرنڈم پر میں نے ریفرنڈم ڈرامہ کے نام سے کارٹون بنایا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر ایس اے طور کے سامنے حاضری دینا پڑی تھی۔
کارٹون ایک بہت پاور فل میڈیم ہے۔ایک مرتبہ سرتاج عزیز صاحب نے بجٹ پیش کیا۔ اس میں کافی ٹیکس لگے تھے۔ میں نے ایک آدمی کی تصویر بنائی، جس کے جسم پر لباس نہ تھا اور وہ ایک ہاتھ اپنے جسم کے آگے اور ایک پیچھے رکھے ہوئے تھا۔ وہ سرتاج صاحب کے دفتر میں آ کر پوچھتا ہے کہ سر اب تو بدن پر کپڑے بھی نہیں رہے اب کیا بیچ کر گزارہ کروں۔ اس کارٹون کی گونج ملک بھر میں سنائی دی تھی۔
'سوشل میڈیا کا خوف‘
جاوید اقبال نے کہا۔ ''مارشل لا دور میں بھی کارٹون بنائے۔ میں نے طاقتور لوگوں پر اپنے کارٹونوں کے ذریعے تنقید کی لیکن کبھی نہیں ڈرا لیکن اب میں بہت خوف زدہ ہو گیا ہوں۔ مجھے سوشل میڈیا کی گالیوں سے ڈر لگتا ہے۔ ایک پارٹی کے لیڈر کا کارٹون بنائیں تو دوسری پارٹی سے عزت بچانا مشکل ہو جا تا ہے اب میں نے بہت سے موضوعات چھوڑ دیے ہیں صرف مہنگائی، لوڈ شیڈنگ یا دیگر عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر کارٹون بناتا ہوں۔ ‘‘
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ کافی نہیں ہیں اور یہاں عوامی آگاہی میں کارٹون میڈیم ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ''میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہر محکمے کے تعلقات عامہ کے شعبے میں ایک کارٹونسٹ بھی ہونا چاہیے، جو اپنے محکمے کے ترقیاتی کاموں کی کہانیاں لوگوں کو کارٹونوں کے ذریعے سنائے۔‘‘
جاوید اقبال کارٹون چند منٹوں میں بنا لیتے ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اب ان کا کام مشکل ہو گیا ہے کارٹون چوبیس گھنٹوں بعد جا کے اخبار میں شائع ہوتا ہے ۔ جبکہ ایک تصویر یا خبر چوبیس سیکنڈز میں وائرل ہو سکتی ہے۔ یہاں سینکڈز اور گھنٹوں میں مقابلہ ہے اس لیے مجھے ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، جو چوبیس گھنٹے تک فریش رہ سکیں۔ میں ہر روز شام پانچ سے سات بجے کے درمیان تازہ خبروں کی معلومات لے کر پھر کارٹون بناتا ہوں۔
جاوید اقبال سے جب ان کی کسی خواہش کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت، جن آرٹسٹوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں قومی ایوارڈز دیتی ہے وہ بعد میں بھی ان کا خیال رکھے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اور نہیں تو صرف آخری عمر میں ان کو صحت کی کچھ بہتر سہولتیں ہی دے دیں۔ ایوارڈ کا مقصد صرف ایک دن اور ایک تقریب میں کسی شخص کی رونمائی تو نہیں ہونا چاہیے۔‘‘