امریکہ میں پاکستانی طالب علم کا اعتراف جرم
5 مئی 2012محمد حسن خالد کو امریکہ کی ایک سویلین عدالت سے دہشت گردی کے ضمن میں مجرم ثابت ہونے والا کم عمر ترین شخص خیال کیا جا رہا ہے۔ اسے امریکہ کی ممتاز جان ہاپکنز یونیورسٹی میں فل اسکالر شپ ملی ہوئی تھی۔ خالد اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ 2008ء میں بالٹی مور منتقل ہوا تھا۔
اطلاعات کے مطابق خالد نے پینسلوینیا سے تعلق رکھنے والی اور ’جہاد جین‘ کے نام سے مشہور ہونے والی خاتون کولین آر لا روز کے ساتھ سازش میں حصہ لیا تھا۔ امریکی استغاثہ کے مطابق خالد نے 15 برس کی عمر سے ہی امریکہ، آئرلینڈ اور جنوبی ایشیا میں ’جہادیوں‘ کے ساتھ رابطے قائم کر لیے تھے۔
کولین گزشتہ برس ہی اعتراف کر چکی تھیں کہ انہوں نے سویڈش کارٹونسٹ لارس ولکس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کولین کا معاملہ امریکی حکام کے لیے اس لیے غیر معمولی نوعیت کا حامل تھا کیونکہ اس میں سبز آنکھوں اور بھورے بالوں والی ایسی امریکی خاتون ملوث تھی، جسے اپنی شباہت کے سبب بغیر شک و شبہ پیدا کیے دہشت گردانہ حملوں میں آسانی میسر تھی۔ ایف بی آئی نے خالد کو گزشتہ برس جولائی میں گرفتار کیا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ خالد نے کولین کے لیے سرمایہ اکھٹا کرنے اور یورپ میں پرتشدد جہاد کے لیے انٹرنیٹ پر لوگ بھرتی کرنے کا کام کیا تھا۔ خالد کا رابطہ آئرلینڈ میں رہنے والے الجزائر کے شہری علی دماچی سے بھی تھا، جو آج کل ایک دوسرے جرم کے سلسلے میں آئرلینڈ ہی میں زیر حراست ہے۔
امریکہ میں قومی سلامتی کی معاون اٹارنی جنرل لیزا نے بتایا، ’’آج کے اس اعتراف میں میری لینڈ کا ایک ایسا انتہا پسند نوجوان ملوث ہے، جس کا انٹرنیٹ پر اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رابطہ تھا۔ اس اعتراف سے پرتشدد انتہا پسندی کا بدلتا رجحان اجاگر ہوتا ہے۔‘‘ خالد نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے دہشت گردوں کو مادی تعاون فراہم کیا تھا۔ خالد کے وکیل جیفری لینڈی نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ اس کی زندگی کا سب سے زیادہ اداس کرنے والا مقدمہ تھا۔ ’’وہ ایک ہوشیار لڑکا ہے، جو سمجھ سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، تاہم ایک اٹھارہ سالہ لڑکے کا ذہن زندگی بدل دینے والے تجربے کو کتنا سمجھ سکتا ہے؟‘‘ امکان ہے کہ سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد خالد کو پاکستان بدر کر دیا جائے گا۔
sk/aa Reuters