تیونس میں حملہ، 80 مساجد بند کرنے کا فیصلہ
27 جون 2015تیونس کے مشہور و مقبول سیاحتی مقام سوسہ کے ساحل سمندر پر واقع امپیریل مرحبا ہوٹل میں جمعے کے دن کی گئی ایک دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں 39 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ طبی حکام نے بتایا ہے کہ اس خونریز حملے کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں آٹھ برطانوی، ایک جرمن اور ایک بلجین بھی شامل ہے۔
تیونس کے وزیر اعظم الحبیب الصید نے ہفتے کے دن صحافیوں کو بتایا کہ ایسی مساجد کو بند کر دیا جائے گا، جہاں تشدد کا درس دیا جاتا ہے، ’’تمام 80 مساجد ایک ہفتے کے اندر اندر بند کر دی جائیں گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان مساجد میں تشدد پر اکسایا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ان کی حکومت کا قومی فریضہ ہے۔ الحبیب الصید نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس تناظر میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔
وزیر اعظم الحبیب الصید نے اعلان کیا کہ آئندہ ماہ سے مسلح سکیورٹی فورسز ملک کے تمام تر سیاحتی ساحلی مقامات اور ہوٹلوں کے اندر بھی تعینات کر دی جائیں گی تاکہ ایسے حملوں کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے اور ملکی باشندوں اور غیر ملکیوں کا تحفظ یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
تیونس کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار رفیق الشلی نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امپیریل مرحبا ہوٹل پر حملہ کرنے والا سیاحوں کی طرح ساحل سمندر تک پہنچا، ’’وہ ایسے کپڑے پہنے ہوا تھا کہ جیسے وہ سمندر میں تیرنے جا رہا ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھتری تھی، جس میں اس نے ایک گن چھپا رکھی تھی۔‘‘ عینی شاہدین نے بھی بتایا ہے کہ اچانک ایک شخص نے اپنی چھتری میں سے گن نکال کر فائرنگ شروع کر دی۔
شام اور عراق میں فعال انتہا پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ نے تیونس میں ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس شمالی افریقی ملک کی جدید تاریخ میں اس دہشت گردانہ کارروائی کو خونریز ترین قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف تیونس میں فعال برطانوی ٹور آپریٹر ’ٹامسن اینڈ فرسٹ چوائس‘ نے ہفتے کے دن دس خصوصی طیارے تیونس روانہ کیے، جن کے ذریعے غیر ملکی سیاحوں کو ہنگامی بنیادوں پر تیونس سے نکالا گیا۔
لندن حکام کے مطابق اس حملے میں ہلاک ہونے والے برطانوی شہریوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ برطانوی ڈیفنس سیکرٹری مائیکل فالن نے میڈٰیا کو بتایا، ’’اس حملے کا شکار ہونے والوں میں برطانوی شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔‘‘